آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مائیکرو ڈرون بم ۔۔۔۔ انسان کی ترقی یا موت ؟؟

ہفتہ 13 فروری 2021

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

مجھے اکثر یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ موبائل اور کمپیوٹر انسان کا وقت بچانے کے لئے ایجاد ہوئے تھے ۔ یہ سچ ہے کہ آئی ٹی نے انسان کو بے پناہ سہولیات فراہم کی ہیں اور دور جدید کی تیز تر دنیا اسی کی مرہون منت ہے لیکن ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اسی ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو ہی نہیں  بلکہ ہمارے کلچر ، روایات اور سوچ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔

ہم ایک ایسے گلوبل ویلیج کا حصہ بن گئے ہیں جہاں ایک ہی گھر یا کمرے میں موجود چار افراد دنیا کے مختلف ممالک میں موجود افراد  سے  براہ راست رابطوں میں ہوتے ہیں لیکن وہی افراد اسی کمرے میں موجود دیگر افراد سے رابطہ کھو دیتے ہیں ۔   اس ٹیکنالوجی نے ہمیں جہاں دنیا بھر سے جوڑا وہیں ہمیں  ہمارے بہت سے اپنوں سے دور بھی کر دیا ۔

(جاری ہے)

مختصر انداز میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے جس میں سے ایک ہماری پرائیویسی بھی ہے ۔

ہم اس وقت جس ٹیکنالوجی سے جڑ چکے ہیں اس میں ہماری کوئی بھی تصویر ، لوکیشن ، ڈیٹا ، یہاں تک کہ کسی سے کی گئی پیغام رسانی  تک ہماری اپنی ذ ات تک محدود نہیں رہی ۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے کہ ہماری اس معلومات کا کوئی غلط استعمال کرتا ہے یا نہیں اور نہ ہی یہ بات کر رہے ہیں کہ یہ معلومات کسی بھی حوالے سے استعمال کی جاتی ہے یانہیں لیکن بہرحال یہ بات واضح ہے کہ یہ معلومات محض ہم تک محدود نہیں رہی ۔


اسی ٹیکنالوجی میں ایک اہم نام آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا بھی ہے ۔ اسے مصنوعی ذہانت کی تکنیک بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی  نے بنی نوع انسان کی زندگی کو مزیدآسان کرتے ہوئے اس کے ٹارگٹس کو مزید یقینی بنایا ہے لیکن اسی ٹیکنالوجی کا استعمال اسلحہ کی دنیا میں بھی ہوا ہے اور انتہائی  چھوٹے ڈرون میں استعمال کر کے اسے اتنا خطرناک بنا دیا گیا ہے کہ اس نے ہر شخص کو غیر محفوط کر دیا ہے ۔

ایسی ویڈیوز جاری ہو چکی ہیں جن کے مطابق اب سپر پاورایسی ڈرون ٹیکنالوجی کی حامل ہو گئی ہے جس میں بظاہر نظر نہ آنے والے ڈرون بم اپنے مخصوص ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان  حملوں میں ان کے ٹارگٹ کے علاوہ اس کے ارد گرد موجود کسی بھی چیز کو نقصان نہیں پہنچتا  ۔ سپر پاورز بظاہر اس پر فخر محسوس کرتی ہیں لیکن ہمارے پاس اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہی ٹیکنالوجی کبھی دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگے گی ۔

ایک لمحہ کے لئے سوچیئے کہ اگر دہشت گردوں کے ہاتھ ایسی ٹیکنالوجی لگ جائے جس کی مدد سے وہ امریکا سمیت کسی بھی ملک کے صدریا کسی اہم شخصیت  کو اس کی خوابگاہ میں اس طرح سے قتل کر دیں کہ آخری لمحے تک کسی کو حملے کا احساس نہ ہو تو ؟ یہی وہ سوال ہےجو اس معاملے کو انتہائی حساس بنا دیتا ہے ۔
اسی طرح سمارٹ ٹارگٹ کے طور پر کسی بھی تعلیمی ادارے یا دفتر کو اس طرح نشانہ بنایا جا سکتاہے کہ وہاں موجود ہر شخص کو لمحوں میں مار دیا جائے اور ان افراد کے سوا کسی چیز کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔

دیگر الفاظ میں اچانک پوری دنیا کسی ایسی جنگ کی لپیٹ میں آجائے جس میں دنیا کے تمام افراد تو مارے جائیں لیکن دنیا کا پورا سٹریکچر اسی طرح قائم رہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس دنیا کا مقصد و مصرف کیا ہوگا؟ ماضی میں جنگوں کو روکا جاتا تھا اور کوئی ایک فوج دوسری پر حاوی آتی تھی جس کی وجہ سے تباہی تو پھیلتی تھی لیکن دنیا کے یکسر ختم ہو جانے کا امکان نہیں تھا۔

اسی طرح ان جنگوں میں فرد ، ریاست یا فوج کو دفاع کا حق حاصل ہوتا تھا  لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مائیکرو  ڈرون ٹیکنالوجی  ہمیں اس سطح پر لا رہی ہے جہاں دونوں فریق حملے کی خبر ہونے تک مارے جا چکے ہوں گے اور کوئی بھی  اپنا دفاع نہیں کر پائے گا ۔ یہ ٹیکنالوجی کا وہ بھیانک چہرہ ہے جس پر دنیا کے اعلی دماغوں کو سوچنا ہو گا ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے سمارٹ فون استعمال کرنے والا کوئی بھی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کی ہر قسم کی معلومات اس کی اپنی ذات تک محدود ہے اور اس کی پرائیویسی میں کوئی کسی بھی حد تک داخل نہیں ہو سکتا ۔

ہم ایسی صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں جس میں اگر ہم انٹرنیٹ پر کوئی پراڈکٹ سرچ کریں یا کسی سے پراڈکٹ خریدنے کی بات کریں تو ہمیں اس پراڈکٹ سے متعلقہ اشتہارات نظر آنے لگتے ہیں۔
اسے منفی انداز میں دیکھیں یا مثبت انداز میں لیکن حقیقت تو یہی ہے  اور یہ صورت حال ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا ڈیٹا صرف ہم تک محدود نہیں ہوتا ۔ یہی صورت حال ہمیں اسلحہ سازی کی مارکیٹ میں بھی نظر آتی ہے ۔

ہم ایک عرصہ سے یہ بات کر رہے ہیں کہ  پولیس  سے زیادہ خطرناک اسلحہ  عموما مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے پاس ہوتا ہے اور وہ اس اسلحہ کے استعمال میں کسی قسم کی اخلاقایات یا قائدے قانون کے قائل نہیں ہوتے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جدید مائیکرو ڈرون اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس  بیسڈ اسلحہ یا بم اس ذہنیت کے حامل افراد تک نہیں پہنچ سکتے ؟ ماضی میں تمام تر حفاظتی دعووں کے باوجود 9/11 رونما ہوا اور ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس واقعہ نے دنیا بھر میں آگ و خون کا دریا بہا دیا ۔

کیا ہم مزید اسی قسم کے کسی سانحہ کے انتظار میں ہیں
جدید ٹیکنالوجی کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ہر چیز کا بے مقصد اضافہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔ یہاں بے مقصد اضافے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ٹیکنالوجی میں ترقی کا سفر کسی سطح تک جا کرروک دینا چاہئے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی استعمال کو بھی مدنظر رکھا جانا ضروری ہے اور اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ یہی ٹیکنالوجی کس سطح پر انسان کی شخصی آزادی یا تحفظ کے حق کو متاثر کر سکتی ہے ۔  اگر ایسا ہے تو اسے روکنے کے لئے بھی اقدامات ضروری ہیں بالکل ویسے ہی جیسے لکڑی انسان کی ضروریات میں شامل ہے لیکن اگر سبھی درخت کاٹ دیے جائیں تو بھی انسان کا دنیا پر زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :