پولیس اصلاحات ۔ نئی وردی بدتمیز اہلکاروں کے لئے خطرہ بن گئی

اتوار 9 اپریل 2017

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

تاریخ کا اپنا ایک نظریہ ہے ۔ یہ عہدے کی بجائے کام کو سلام کرتی ہے ، ہمارا مزاج البتہ مختلف ہے ۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اپنی سروس پوری کر کے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں ۔ عام طور پر ریٹائرڈ افسران سے لوگوں کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں ۔ یاد آتا ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ملک کا واحد نجات دہندہ قرار دینے والے ہی انہیں کرپشن کا بادشاہ قرار دینے لگے تھے ۔

جنرل راحیل شریف کے ریٹائرڈ ہوتے ہی ان کے چاہنے والوں کے تجزیے کی سمت بدلنے لگی تھی ۔ سابق چیف جسٹس کی بحالی کے لئے بڑی تحریک چلانے والے ہی انکے خلاف بیانات داغتے نظر آتے ہیں ۔ ان حالات میں آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو بھی بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ان کے بارے میں تو ویسے ہی ان کے ناراض دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی کا کام نہیں کرتے ۔

(جاری ہے)

عام طور پر کسی کا کام نہ کرنے والے آفیسر کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ہمارے یہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی آفیسر آپ کا دوست ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دے۔ سفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی کی نصیحت ہم صرف ان سرکاری افسران کو کرتے ہیں جن سے ہماری واقفیت نہیں ہوتی ۔ مشتاق احمد سکھیرا کی سخت گیر آفیسر کے طور پر پھیلنے والی شہرت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔

عام طور پر اس حوالے سے ناراضی کا اظہار بھی تبھی کیا جاتا ہے جب آفیسر عہدے سے سبکدوش ہو چکا ہو ۔ان بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ محکمانہ ذمہ داریوں اور اپنے آفیسرز کی کمزوریوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور کام نہ کرنے والوں سے جواب ضرور طلب کرتے ہیں ۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے محکمہ پولیس کے کئی افسران یقینا ان سے خفا ہوں گے ۔ بظاہر یہ دونوں عادات ہر سرکاری آفیسر میں ہونی چاہئے اور اسے خوبی سمجھنا چاہئے لیکن ہمارے ملک کو جس سفارشی سسٹم کا سامنا ہے اس میں ان عادات کا حامل افسر یقینا کئی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ۔


اس میں دو رائے نہیں کہ دانشوروں کی ہر تقریر میں سرکاری افسران کو سفارشی کلچر اور لاپروائی کی روش سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی خوبی کے حامل افسران کو ہی کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں ” رگڑا “ بھی لگایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ جو کسی اور کی سفارش نہیں سنتا وہ ہماری بھی نہیں سنے گا اور جو سب ماتحتوں سے لاپروائی پر جواب طلب کرتا ہے وہ ہم سے بھی جواب طلب کرے گا ۔

آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا دو بڑے صوبوں کے آئی جی رہنے کے بعد اب محکمہ پولیس سے رخصت ہو رہے ہیں ۔ ان کی جگہ اب کسی اور قابل آفیسر کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر فائز ہونا ہے ۔ ایسے حالات میں یہ تو طے ہے کہ رخصت ہونے والے آئی جی کی پروفیشنل ازم کا ذکر کر کے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن کچھ الفاظ تاریخ کی امانت کے طور پر رقم کرنا ضروری ہوتے ہیں ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ مشتاق احمد سکھیرا نے پنجاب پولیس میں کئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں ۔ اس وقت پنجاب پولیس پورے پاکستان میں ڈیجیٹل پولیسنگ کی بانی بن چکی ہے ۔ پنجاب پولیس کے تمام اہلکاروں اور افسران کا مکمل ذاتی اور سروس ڈیٹا اب آن لائن سسٹم کے تحت موجود ہے۔ اسی طرح فرنٹ ڈیسک سروس کے تحت شہریوں کی شکایات آن لائن درج کی جا رہی ہیں ۔

دیگر الفاظ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب پولیس نے رجسٹروں اور روایتی محرر سسٹم سے جان چھڑا لی ہے ۔ بلاشبہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔پولیس سے ہماری اکثر شکایات تھانوں میں روایتی محرر سسٹم ، رجسٹروں میں کچا اندارج یا پکی رپورٹ کا ریکارڈ نہ ملنے کی وجہ سے تھیں جنہیں ختم کرنے کا کریڈیٹ بہرحال آئی جی مشتاق سکھیرا کو ملتا ہے۔


مجھے ذاتی طور پر آئی جی پنجاب کے جن اقدامات نے متاثر کیا ان میں روایتی تھانے کے نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پولیس کے ہی خلاف آن لائن شکایات درج کروانے کے لئے آئی جی آفس میں قائم 8787 کمپلینٹ سیل ، تمام تھانوں میں فرنٹ ڈیسک کے قیام اور ان کی کیمروں سے مانیٹرنگ سمیت پولیس انٹیلی جنس سسٹم کے لئے جدید سافٹ ویئرز کا استعمال ہے ۔ میری توجہ شہریوں سے بدسلوکی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ ایکشن پر رہی ہے ۔

یہ وہ نقطہ ہے جس پر توجہ دینے سے کچھ ہی عرصہ میں تھانہ کلچر مکمل طور پر تبدیل ہو سکتا ہے ۔ پولیس کے خلاف کسی شہری کا گھر بیٹھے آئی جی آفس میں شکایات درج کرانے کی سہولت کی فراہمی اور اس شہری سے سینئر پولیس آفیسر کو خود رابطہ کرنے پر مجبور کر دینا انہی کا کارنامہ ہے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے جاتے جاتے پولیس وردی کی تبدیلی کے نام پر جو کارنامہ سر انجام دیا ہے وہ شاید کئی لوگ وردی کے رنگ اور دیگر اعتراضات کے شور میں نظر انداز کر رہے ہیں ۔


اگلے روز پولیس اہلکاروں کو نئی وردی میں ملبوس دیکھا ۔ اس وردی میں نظر آنے والی ایک اہم تبدیلی ہی اس کالم کی بنیادی وجہ بنی ۔ اس نئی پولیس وردی میں اہلکار کے نام کے ساتھ ساتھ اس کا پیٹی نمبر بھی سینے پر درج ہے۔ مجھے یہ تبدیلی کمپلینٹ سیل اور مانیٹرنگ کی ہی ایک کڑی محسوس ہوئی ۔ ماضی میں پولیس اہلکار کی شناخت یعنی پیٹی نمبر اس کی بیلٹ پر درج ہوتا تھا جو زیادہ واضح نظر نہیں آتا تھا ۔

کسی شہری کے ساتھ پولیس اہلکار کے نامناسب رویہ کے بعد شکایت کے لئے اس اہلکار کی شناخت معلوم کرنا ہی سب سے مشکل کام تھا ۔ اب اس نئی وردی میں ہونے والی اس تبدیلی کے ذریعے شاید آئی جی پنجاب نے بدتمیز ، جھگڑا لو اور محکمہ پولیس کی بدنامی کا باعث بننے والے روایتی اہلکاروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے ۔ اب کسی بھی شہری کو پولیس اہلکار سے ملتے ہی اس کا نام اور پیٹی نمبر معلوم ہو جائے گا اور اہلکار کو بھی علم ہو گا کہ شہری نہ صرف اس کی مکمل شناخت سے آگاہ ہے بلکہ نامناسب رویہ پر آئی جی آفس کے شکایت سیل سے محض ایک فون کال کی دوری پر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :