انتہا پسندی

منگل 29 دسمبر 2020

Syed Ghayur Haider

سید غیور حیدر

میں چند دن سے مولانا مودودی کو پڑھ رہا تھا۔ کمال کی شخصیت تھے‘ اسلام کو مذہب کی بجائے ریاست سمجھتے تھے‘ ارتداد کی سزا قتل قرار دیتے تھے‘ سیکولرازم، ڈیموکریسی اور نیشن سٹیٹ کو مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی سازش کہتے تھے۔
عالمی خلافت اور غیر مسلم حکومتوں کو طاقت کے زور پے سر نگوں کرنے کو دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ مسلمان گروپس کے ہتھیار اٹھا کر کافر ریاست میں کہیں چڑھائی کرنے کو جہاد کہتے تھے۔


ان کے نزدیک کافر ملک میں خودکش دھماکہ کرنا بھی جائز تھا مگر بیمار ہونے پر علاج کیلیے کافر اور سازشی امریکہ چلے گئے اور نیو یارک میں فوت اور دفن ہوئے
جماعتِ اسلامی انہیں مولانا مودودی کی بنائی ہوئی ہے جسے آج تک اقتدار میں حصہ تک نہیں ملا۔

(جاری ہے)


جماعتِ اسلامی کے لوگ دہشتگردی کو برا کہتے ہیں مگر ان کے میں خیال ان لوگوں سے تدبیر میں غلطی ہوئی ہے۔

مقصد تو بڑا نیک ہے
آپ میں سے جسے ان باتوں پر شک ہے وہ مفتی تقی عثمانی یا مفتی منیب الحمٰن ہی کے آرٹیکلز پڑھ لے بس
 پاکستان بننے سے پہلے مودودی صاحب قائدِاعظم کو یہودی ایجنٹ اور پاکستان کو پلیدستان بھی کہتے تھے۔ اسی ملک پر پھر وہ جمہوری پارٹی بنا کر اقتدار حاصل کر کے اپنی طرز کا اسلام بھی نافذ کرنا چاہتے جو کہ دقیانوسی سوچ والے ضیاء نے کر بھی دیا
ایوب خان نے مودودی کے حوالے سے ایک بڑی خوبصورت بات کہی تھی
’’ یہ وہ کتے ہیں جو بھارت نے چھوڑ رکھے ہیں۔

پاکستان بننے سے پہلے قائدِاعظم پر بھونکتے تھے۔ اب ملک پر بھونکنے بھارت سے ادھر آ گئے ہیں۔‘‘
مودودی صاحب نے جہاد کے حوالے سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے جہاد کا مقصد دنیا سے کفر سے خاتمہ قرار دیا۔ اور بھی بہت کچھ تھا مگر خیر۔۔۔۔۔۔
علامی اقبال نے اس کارنامے پر انہیں بلوا کر شاباش دی تھی۔ اقبال کے علماء سے سو اختلاف تھے مگر علماء ان کی صرف اس لیے تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے روایتی بیانیے سے اختلاف کم از کم جہاد اور قتال کے معاملے میں نہیں کیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔


 مولانا مودودی کی کتابیں انگریزی، عربی، تاملی، ہندی، بنگالی، تیلوگو، برمی اور ملے سمیت بہت سی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں اور جب بھی علماء ریاستوں سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہی بیانیہ دماغ میں ہوتا ہے جو مالانا مودودی دے گئے تھے۔
آج سیاسی اور ریاستی اسلام کے حوالے سے سب مسلمانوں کا وہی بیانیہ ہے جو مودودی دے گئے تھے۔

دنیا اسی بیانیے کی بناء پر کہتی ہے:
 "Today, We are threatened by Radical Islamic Fundamentalism."
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مدارس میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پڑھائی جاتی ہے جو کہ عام دینی لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے؟ تو جواب ہے نہیں!
مدارس اور روایتی علماء میں وہ بیانیہ اور دینی فکر پڑھیایا جاتا ہے جو پھر کچھ لوگوں کو دہشتگرد اور کچھ کو ان کا ہمدرد بنا دیتا ہے۔
آپ میں سے کوئی اس روایتی بیانیے کو جو کہ اکثر عام مسلمانوں سے چھپا کر خصوصاً مدارس ہی میں اور اس میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو پڑھایا جاتا ہے، تو جاوید احمد غامدی کے خطباتِ ڈیلس سن لیجیے۔
وہ آپ کو ایک جوابی بیانیہ بھی دیں گے جو کہ میرے نزدیک، دین کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :