ہمیں ڈر کر رہنا ہے

جمعرات 31 دسمبر 2020

Syed Ghayur Haider

سید غیور حیدر

مشال خان ایک پشتون پاکستانی نوجوان تھا جو کہ سکولرشپ پر روس پڑھنے گیا مگر ایک سال بعد فیملی کی مالی حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے واپس لوٹ آیا۔ روس میں خدا کا کوئی تصور نہیں۔ مشال کو وہاں اپنے عقائد کے دفاع میں مباحثے بھی کرنے پڑے ہوں گے اور دلائل بھی دینے پڑے ہوں گے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان واپس آ کر اس نے جرنلزم کی پڑھائی شروع کر دی اور پاکستان کی سیاست، مذہب، سماج اور تہذیب کی بہت سی باتوں پر تنقید شروع کر دی۔


وہ بلاسفیمی لاء اور قادیانیوں کے لیے بنائے گئے ریاستی قوانین کو ظلم اور ناانصافی قرار دیتا تھا۔ پاکستان میں یہ بہت ہی خطرناک موضوعات ہیں اور ان پر بات بہت ہی محتاط انداز میں کرنی چاہئیے۔ لیکن مشال خان کو غالباً ارسطو بننے کا شوق تھا تبھی انہوں سوشل میڈیا اور سوشل گیدرنگز میں بھی ان موضوعات پر اپنی رائے دینا شروع کر دی۔

(جاری ہے)

13 اپریل 2017 کو ایک ہجوم اکٹھا ہوا جنہوں نے اسے دوسری منزل سے دھکا دیا اور پھر مار مار کے جان سے ہی مار دیا۔

مار کھاتے ہوئے وہ چلا چلا کر کہتا رہا‘ ’’مارو مجھے۔ قتل کر دو۔ اسی سے تمہیں ثواب ملے گا۔‘‘ وہ اسے تب بھی مارتے جب جان جسم سے نکل چکی تھی۔ پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم اس کی لاش کو جلانا چاہتا تھا۔ جن دنوں وہ قتل ہوا، وہ عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کی کرپشن پر تنقید کر رہا تھا اور کوئی ایسا مواد نہیں ملا جو اسے گستاخ ثابت کرے۔


اس کے قاتلوں کو اس کے قتل پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا اور سب خود کو میانوالی کا علم دین سمجھتے تھے۔ مردان اور خیبر پختونخواہ سمیت ملک بھر کے بہت سے علماء کرام نے بھی اسے گستاخ اور قابلِ قتل قرار دیا اور اس کی موت کو ایک حق قتل قرار دیا۔ اس قتل نے ایک تاریخ رقم کی۔ اس نے مجھ سمیت سبھی طالب علموں اور سوچ بچار کرنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ ڈر کے رہو۔


پاکستان کا المیہ کیا ہے؟ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ مقتدر حلقوں اور عام انسان کی آنکھوں کے لینز تقریباً ہر معاملے کو بہت مختلف نقطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہماری فوج، بیورو کریسی اور سیاستدان، سبھی اس نظر سے معاملات دیکھتے ہیں جو قائدِاعظم محمد علی جناح کی نظر تھی۔ پاکستان کا ہر عام آدمی اسے مسلمانوں کی وہ زمین سمجھتا ہے جس پر غیر مسلم دوسرے درجے کے حقوق کے مالک ہیں‘ گویا محکوم ہیں۔

عام اور خاص آدمی کے مختلف زاویہِ نظر نے ملک میں شناخت کا بحران پیدا کیا ہے اور کوئی عام آدمی نہیں جانتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان صرف مسلمانوں کا ملک ہے جو غیر مسلموں کو بھی یہاں جینے کا حق دیتا ہے یا یہ ایک قومی ریاست ہے جس میں سب آزاد برابر شہری ہیں؟ یہ کنفیوژن ہی سارے مسؑلوں کی جڑ ہے اور اسے حل کیے بنا کوئی ترقی یا ریفارم تو دور کی بات‘ پاکستان کی عمر ہی نہیں شروع ہو سکتی۔


ہمارے طلباء جب پاکستان بنانے کا مقصد جناح صاحب کی تقاریر میں تلاش کرتے ہیں تو ان کے بیانات میں بہت تضاد پایا جاتا ہے۔ کہیں وہ اسے ایک اسلامی ریاست کہتے ہیں اور کہیں ایک سیکولر ریاست۔ محققین کے نزدیک ان کے عام مسلمانوں کے مفہوم والی اسلامی ریاست کے نعرے کا مقصد عوام کو متحد کرنا تھا اور در حقیقت تو وہ ایک جدید جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے جیسا کہ انہوں نے پاکستان بننے سے 3 دن قبل اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں کہا تھا۔


یہی پاکستان کی ریاست کا صحیح مفہوم ہونا چاہیئے۔ آج دنیا مساوات اور برابری کے مقدس اصولوں پر کاربند ہے اور قدیم دور کے تمام تصورات سائنسی انقلاب کے نیچے دفن ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تمام شہری اپنی نسل،ذات، رنگ اور مذہب سے بالاتر ہو کر محض پاکستان کے شہری ہیں۔ پوری دنیا آج اسی اصول پر کھڑی ہے اور اگر کسی عام پاکستانی کو اس میں شک ہے تو اس سے کہیے کہ وہ ایران میں بنا ویزے کے گھس کر دکھائے یا اس ملک میں جاتے ہی مستقل شہریت حاصل کر کے دکھائے۔

آپ اگر مغرب میں یا امریکہ میں جائیں تو دیکھیں گے کہ ریاست بنا کسی کی نسل اور مذہب کی تمیز کے، نہ صرف عبادت گاہوں کی تعمیر اور مذہبی رسومات کی آزادی دیتی ہے بلکہ اپنے شہر کا میئر کا ملک کا صدر تک بنا ڈالتی ہے۔
 یہ صرف جہالت ہے جس نے ہمیں اس مصیبت میں ڈال رکھا ہے کہ لکھیں کہ پاکستان میں مندر بن سکتا ہے اور قادیانی بھی عبادت کر سکتے ہیں اور ریاست کسی بھی مذہب کو یہاں تبلیغ سے روکے تو عالمی قوانین کی بھی دھجیاں اڑائے گی اور سماجی لابرابری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو گی۔

یہ لاعلمی اور چند پریشر گروپس کے مفادات ہیں جو ہمیں بولنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بلاسفیمی کے حوالے سے ہمارے قوانین دین کی روح کے خلاف ہیں، علم دین شہید نہیں قانون ہاتھ میں لینے والا کردار تھا اور قتل کسی مسؑلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں مار کٹائی اور مار دھاڑ کی بجائے اب پیار محبت سے بھی کام لے کر دیکھنا چاہیئے۔ ہم نے قادیانیوں کیلئے کافر کافر کا راگ الاپنے کی بجائے انہیں سمجھایا ہوتا تو ان کے بچے کب کے مسلمان ہو گئے ہوتے۔

ہم نے اسلام کو اپنی وراثت بنانے اور باقی اقوام کو اس سے دور کرنے کی غلطی کی ہے۔
 آپ آج پاکستان کا حال دیکھیں۔ مسلمانوں کے زوال اور جہالت کی ایک پینٹنگ ہے آج کا پاکستان۔ سندھ سے کچھ جے آئی ٹی رپورٹس آئی ہیں۔ اس میں مہرے تو پکڑے لیے گئے لیکن اصل کھلاڑی تو آزاد گھوم رہے ہیں اور ہمارے عدالتی نظام میں اتنی قابلیت اور طاقت ہی نہیں کہ ان لوگوں پر آنکھ بھی ڈال سکے۔


 یہاں سب آزاد ہیں مگر ہم صحافیوں کو ڈر کہ رہنا ہے کہ کہیں نا چاہتے ہوئے بھی کسی پروگرام یا بلاگ میں توہینِ عدالت کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ ہمیں ڈر کہ رہنا ہے کہ کہیں یہ کہتے ہوئے کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر میں کوئی عذر نہیں ہے، ہم اسلام کے خلاف نہ کچھ کہہ دیں اور یہاں کے اسلام کے ٹھیکیداروں کے مفادات کو ہم چیلنج نہ کر دیں اور ہم پر بھی کافر، قادیانی یا لنڈے کا لبرل ہونے کا لیبل نہ لگ جائے۔

ہمیں ڈر کے رہنا ہے کہ آن دی سکرین یا آف دی سکرین کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جو گریٹیسٹ نیشنل انٹرسٹ کے ٹھیکیداروں کو ناراض کر دے اور ہم پر راء کا ایجنٹ، غدارِ وطن یا یہودی لابی کا بندہ ہونے کا لیبل نہ لگ جائے۔ ڈر کہ رہنا ہے ملک کی مڈل کلاس کو، پیشہ وروں کو اور تجزیہ کاروں اور لکھاریوں کو۔
 ڈر کہ انہیں نہیں رہنا جو ہرخدائی، انسانی اور آئینی حکم کی دھجیاں اڑا دیں۔

جن کی سرپرستی میں فیکٹری میں 250 لوگوں کو جلا کر بھسم کر دیا جائے، انھیں بالکل ڈر کہ نہیں رہنا۔ یہ لوگ اشتہاری سے لیڈر بھی بن جائیں گے، انہیں ریاستی سرپرستی بھی مل جائے گی، ان کے نام ای سی ایل سے بھی نکل جائیں گے۔ ڈر کہ صرف ہمیں رہنا ہے۔ ہمارے سارے ملک کی سوچ اسی سطح پر مقفل ہوئی ہوئی ہے۔
 جس ملک میں سیاست اور سماج اس حد تک مجرمانہ قسم کی سطحی سیاست اور عدالت پر انحصار کرے، وہاں کسی قسم کی معاشی ترقی اور ذہنی نشوونما ممکن نہیں رہتی۔

کسی معاشرے کو پنپنے کیلیے لوگوں کی روح کو آزاد کرنا پڑتا ہے اور پاکستان میں کوئی روح آزاد نہیں‘ ہمیں ڈر کہ رہنا پڑ رہا ہے۔
 ان سب مسائل کا حل نہ عمران خان کے پاس ہے نہ افواجِ پاکستان کے پاس۔ ان مسائل کا حل ہمارے اور آپ کے پاس ہے۔ ہم سب کو مل کر اس پسماندہ سوچ اور سطحی فکر کو بدلنا ہے جو ایسی توجیہات گھڑتی ہے جسے یہ کرمنل مافیاز کبھی مذہب، کبھی حب الوطنی اور کبھی جمہوریت کے نام پر استعمال کرتا ہے۔ ہمیں ایک فکری تبدیلی لانی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :