ڈسپلن

ہفتہ 3 جولائی 2021

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

تعلیمی اداروں میں آج تک پرنسپل کی جتنی بھی تقریریں سنی ہیں۔ان سب میں صرف ایک بات کی جاتی ہے۔کہ جو زندگی میں ڈسپلن رہے گا وہی اچھے نمبر لے گا اور وہی کامیاب ہوگا۔ یہ بات سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں۔کیا اس بات میں واقعی سچائی ہے کہ جو لوگ ڈسپلن رہتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ تو سائکولوجی کے مطابق یہ بات صریحاً غلط ہے۔ دنیا میں ہائی پرفارمنس دکھانے کے لیے ڈسپلن سے زیادہ ضروری ہے انسان کا دماغ پر سکون ہو اور اس کے پاس اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہو۔

تا کہ وہ لوگوں پر اپنا اثر قائم کر سکے۔ یہی وجہ ہے وہ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ہائی اسکول سے ہی یونیفارم وغیرہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بچے کی یہ تربیت ہوتی ہے کہ وہ ہر صبح اپنے زندگی کے بارے میں ایک نیا فیصلہ کرے کہ اس نے آج کیا پہننا ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات ہمیں بہت چھوٹی لگتی ہے لیکن اسکول کے بچے کے لیے یہ اختیار بہت بڑی بات ہے۔
ہم نے ایک اسکول کالج میں لفظ مانیٹر سنا۔

یونیورسٹی پہنچ کر اس کردار کے نام کو تبدیل کر کے سی آر کر دیا گیا۔ لفظ سی آر یعنی class representative سے ہم نے یہ مطلب لیا تھا کہ یہ کلاس کا نمائندہ ہوتا۔ یہ بندہ کلاس کے لوگوں کے مسئلے حل کرتا ہے۔لیکِن پھر ایک پڑھے لکھے آدمی نے ہمیں یہ سمجھایا کے سی آر کلاس نہیں انتظامیہ کا نمائندہ ہوتا ہے۔ لیکِن مضحقہ خیز تو یہ ہے کہ اکثر اوقات انتظامیہ اپنے ہی نمائندے کی بات نہیں سنتی۔

اور نمائندہ اکثر ان کی وجہ سے لوگوں کی باتیں سنتا رہتا ہے۔سی آر کی تعریف میں ترمیم کے بعد مناسب یہ ہوگا کے سی آر کے عہدے کو ٹی آر یہی teacher representative کر دیا جائے۔ تاکہ مستقبل میں آنے والے بچے ہماری طرح کنفیوژ نہ ہوں۔ پاکستان میں ہم بڑی سیاسی جماعتوں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ لیڈر نہیں پیدا کر رہی۔ جب ایک درس گاہ غلاموں کی تربیت کرے تو سیاسی جماعتوں کو اس پر چھوٹ دی جا سکتی ہے۔


اب ڈسپلن کو نافذ کرنے کے لیے ایک ایسی چیز کا سہارا لیا جاتا ہے کہ جب لوگوں سے اس کے بات کی جائے تو اُن کے منہ بند ہوجاتے ہیں۔ جی مذہب کی بات ہو رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کے استعمال کی کہانیاں مغل دربار کے وقتوں سے موجود ہیں۔ جب ملا عبد نبی صدر بادشاہ اکبر کو خوش کرنے کے لیے اور انکی راجپوت بیویوں کو جائز قرار دینے کے لیے منفرد فتوے جاری کرتے ہیں۔

دین ہمارے معاشرے میں صرف لوگوں کو قابو کرنے کے لیے رہ گیا۔ قرآن مجید سمجھنے کی توفیق نہیں ہے۔مگر قرآن مجید کو ہر صبح چوم کر گھر سے نکلنے میں ہم سعادت سمجھتے ہیں۔ ہم مشرقی لوگ ہیں۔ ہماری اقدار ہیں۔ وہ اقدار جو ایمان دار لوگ پیدا نہیں کر سکتے۔ مسئلہ وہی ہے کہ ہم مشرقی لوگ ہیں مگر بزور شمشیر ہیں۔ ہم سے یہ سب کچھ کرایا جاتا ہے۔اس طرح کنفیوژن پھلتی ہے اور انسان کو سمجھ نہیں پڑتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔


میری ہمیشہ سے یہ سوچ ہے کہ اگر آپ نے کسی مسلے کو سمجھنا ہے تو آپ نے وجہ تلاش کرنی ہے۔کہ آخر مخصوص طبقہ اس قسم کی سوچ کیوں رکھتا ہے۔ہمارے بڑوں کو ڈسپلن ڈسپلن کھیلنے کا شوق کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں چار جنریشن زندہ ہیں۔ پہلی بےبی بومر جو 1994 سے 1964 تک کے عرصے میں پیدا ہوئے۔ ان لوگوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ ان تربیت اس دور میں ہوئی جب دنیا میں کرنے کے کام کم تھے۔

ان کے پاس دن میں کافی وقت ہوا کرتا تھا۔ یہ پورا پورا اخبار پڑھ لیتے ہیں۔اور بڑی بڑی ٹیلی وژن سیریز کو بھی با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا کسی مخصوص چیز توجہ دینے کی صلاحیت کافی زیادہ ہے۔ دوسری جنریشن ہے جنریشن ایکس جو 1965 سے 1980 کے درمیان میں پیدا ہوئی۔ اس جنریشن نے دنیا میں ترقی دیکھی۔ ان کے زمانے میں گاڑیوں، ٹیلی کام،آمدورفت کے شعبوں میں ترقی دیکھنے کو ملی۔

یہ کمپیوٹر کو استعمال کرنے کے شوقین لوگ تھے۔ آج کے دور میں بےبی بومر اور جنریشن ایکس کی سوچ کو تقریباً ایک جیسا کہا جا سکتا ہے۔ تیسری جنریشن ہے جنریشن یای جو 1980 سے 1995 تک پیدا ہوئی۔ اس جنریشن نے صدی بدلتے دیکھی۔ انٹرنیٹ ان کے زمانے کی ایجاد ہے اور یہ لوگ اس وقت انٹرنیٹ پر لوگوں کے ساتھ تعلقات بنانے کے شوقین لوگ ہیں۔ اس کے بعد نمبر آتا جنریشن زیڈ کا جو 1995 کے بعد پیدا ہوئی۔

یہ جنریشن ایک ڈیجیٹل جنریشن ہے۔ اس جنریشن کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کیسی چیز پر زیادہ توجہ نہیں دے سکتے۔ بےبی بومر جو ایک البم کو بار بار سن لیتے تھے۔ان کے بر عکس یہ جنریشن 3 منٹ کا گانا بھی پورا نہیں سن پاتی۔ اس جنریشن کو سب سے زیادہ ٹک ٹاک نے متاثر کیا جہاں ویڈیو کا دورانیہ 20 سے 30 سیکنڈ کے درمیان ہوتا ہے۔ ان کے پاس وقت کی کمی ہے۔

یہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتے ہیں۔ کسی خاص ڈسپلن پر قائم رہنا ان کے لیے نا ممکن ہے۔ ان کی زندگی میں تبدیلی بہت تیز ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو کسی بھی ضابطہ اخلاق پر قائم رکھنا فساد تو قائم کر سکتا ہے ڈسپلن نہیں۔
اس وقت دنیا میں فیصلہ کرنے کا اختیار زیادہ تر بےبی بومر اور جنریشن ایکس کے پاس ہے۔ یہ لوگ جنریشن زیڈ کو مکمل طور پر بیوقوف اور بد اخلاق سمجھتے ہیں۔

ان کی خواہش ہے کہ جنریشن زیڈ بھی ان کی طرح بن جائے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ مسئلہ پورے کے پورے جنریشن کا ہے۔ جس کو آپ اپنے ڈھانچے میں ڈال ہی نہیں سکتے۔ مریخ پر انسان آباد ہو سکتے ہیں لیکن جنریشن زیڈ سے کسی چیز پر فوکس نہیں کرایا جا سکتا۔ بےبی بومر اور جنریشن ایکس کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ جن کو قابو کرنے کے چکر میں ہیں وہ خود اپنے آپ کے کنٹرول میں کم ہیں۔ ان کا کنٹرول ان کے موبائل میں موجود آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے پاس ہے۔ اگر ان کے لیے کوئی ڈسپلن بنانا ہے تو ضروری یہ ہے کہ ان کی سائکولوجی کو پڑھیں۔ کوئی بھی فیصلہ جذبات کریں گے تو یہ جنریشن آپ کو کبھی بھی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :