کورونا ویکسین

منگل 23 مارچ 2021

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

اگر آپ کی عمر اس وقت سولہ سال ہے اور آپ اسرائیل کے شہری ہیں تو آپ کو ویکسین لگ سکتی ہے۔مگر دنیا کے 67 ممالک ایسے ہیں۔جن میں کسی کو بھی ویکسین نہیں لگی۔ میکسیکو میں اساتذہ کو ویکسین لگ رہی ہے۔مگر پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں اساتذہ کو ویکسین نہیں لگ رہی۔ امریکہ میں حاملہ خواتین کو ویکسین لگ سکتی ہے مگر پاکستان کی خواتین کو نہیں۔

یہ سب ویکسین کی وہ غیر منصفانہ تقسیم ہے۔جو اس جاگیر دار معاشرے پر مسلط ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت موجود ویکسین پر امیر ممالک کا قبضہ ہو چکا ہے۔کیوں کہ ان ممالک نے ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو پہلے سے آرڈر دے دیے تھے۔ دنیا کی 53 فیصد ویکسین پر اس وقت چند مملک کا قبضہ ہے۔ حد یہاں پر یہ ہوئی کہ جب امیر امیر ممالک نے اپنی ضرورت سے زیادہ ویکسین آرڈر کی۔

(جاری ہے)

کینیڈا نے اپنے ہر شہری کے لیے ویکسین کی پانچ خوراکیں خرید رکھی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ قریبی جزرہ نما ممالک کے لیے ویکسین خرید لی ہے۔
وبا بنیادی طور پر ایسی صورت حال کا نام ہے کہ جس میں ہر شخص کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب تک کوئی ہر کوئی محفوظ نہ ہو جائے تب تک کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ویکسین کی تقسیم منصفانہ انداز میں ہو۔

کسی بھی عالمی وبا کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ دنیا کی کل آبادی کے 60 فیصد کو ویکسین مہیا کریں۔ اس وقت دنیا کی آبادی سات اعشاریہ آٹھ ارب ہے۔ تو کورونا وائرس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کم سے کم چار اعشاریہ سات ارب لوگوں کو ویکسین مہیا کی جائے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین کو پوری دنیا میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔

کیوں اگر کوئی حکومت اپنے ملک کو ویکسین مہیا کر بھی دے تب بھی اس ملک کے لوگوں کی زندگی معمول پر نہیں آسکتی۔کیوں کہ اس ملک کے لوگ دنیا میں اس وقت تک آزادی سے کاروبار نہیں کر پائیں گے جب تک کے وہ ممالک جن کے ساتھ کاروبار کیا جا رہا ہو وہ محفوظ نہ ہو جائیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال پچھلے پی ایس ایل میں دیکھنے کو ملی جب نیوزی لینڈ کے ایک کھلاڑی کولن منرو کو ستر ہزار ڈالر کا کنٹریکٹ اس لیے چھوڑنا پڑھ گیا کہ اس نے ملک میں واپسی پر چودہ دن کا قرنطینہ کرنا تھا۔

اور رش کی وجہ سے  قرنطینہ کی بکنگ اُنہیں نہیں مل رہی تھی۔ یعنی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملک اپنے ملک میں قابو پا بھی لے تب بھی اس ملک کے حالات معمول پر نہیں آسکتے۔
ڈبلیو ایچ او نے غریب اور پسماندہ ممالک کو ویکسین سپلائی کرنے کے لیے COVAX کے تحت ایک نظام ترتیب دیا۔ اس کے تحت فیصلہ ہوا کہ ڈبلیو ایچ او دنیا کی کل تیار ویکسین کا بیس فیصد حاصل کر کے اسے غریب ممالک میں تقسیم کر دے گی۔

اس مہم کے دوران کل 92 ممالک نے COVAX کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کرائی۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جس نے بروقت COVAX سے رابطہ کر کے اپنے لیے آبادی کے حساب سے بیس فیصد ویکسین بک کرادی۔ COVAX نے فروری سے مئی تک کے عرصے کے لیے 286 ملین ویکسین کی خوراکیں خریدیں اور ایک نظام کے تحت اس کے تقسیم کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کو اس عرصے کے دوران چودہ اعشاریہ چھ ملین ویکسین کی خوارکیں مہیا کی جائیں گی۔

پاکستان کے لیے ویکسین بھارت میں تیار کی جائے گی۔ ابھی تک بھارتی حکومت کی طرف سے اس ویکسین کو پاکستان برآمد کرنے کی اجازت نہیں ملی۔مگر حکومت پاکستان پر امید ہے کہ یہ ویکسین جون تک پاکستان پہنچ جائے گی۔
بھارت میں جو ویکسین تیار کی جارہی ہے۔ وہ ویکسین بھارت کی اپنی تیار کردہ نہیں ہے۔ یہ آکسفورڈ کی آسٹرا زینکا ویکسین ہے۔ بھارت کی سیرم انسٹیٹیوٹ نے آکسفورڈ سے ایک ارب ویکسین تیار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔

اس ویکسین کو covisheild کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت اس وقت دنیا میں ویکسین کا حب ہے۔ بھارت اس وقت تقریباً 65 ممالک کو ویکسین سپلائی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں بیس ہزار ویکسین پوائنٹ قائم کیے گئے ہیں جہاں لوگوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر روز دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگا رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ویکسین کے صورت حال یہ ہے کہ یہاں سینوفرم ویکسین لگائی جارہی ہے۔

روسی ویکسین سپوٹنک پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اس ساتھ ساتھ ایک اور چینی ویکسین کین سینوں کو بھی پاکستان میں لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جون سے پہلے ایک کروڑ ویکسین کی کاپیاں درآمد کر لے۔ COVAX سے پاکستان کو چار اعشاریہ پانچ کروڑ ویکسین کاپیاں ملنے کی توقع ہے۔ ان تمام ویکسین کی درآمد کے بعد بھی پاکستان کو ویکسین کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوگی۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میں کوئی بھی میڈیکل یونیورسٹی اب تک کوئی ویکسین نہیں بنا سکی۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور نے کچھ بیرونی کمپنیز کے ساتھ ویکسین کے ٹرائل میں حصہ لیا۔جس کی بدولت پاکستان کو کچھ ویکسین کی تیار کاپیاں مل گئی ہیں۔جو اس وقت لوگوں کو مہیا کی جا رہی ہے۔ آسٹرا زینکا کی ویکسین جو پاکستان کو COVAX کے ذریعے ملے گی۔

اس پر بہت سے ممالک نے اعتراض اٹھایا ہے کہ اس ویکسین کے لگانے کے بعد کچھ لوگوں کا خون جم جاتا ہے اور انکی موت واقع ہو جاتی ہے۔ آسٹرا زینکا نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ انکے ٹرائل میں کسی ایک بندے کو بھی اس طرح کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ اب یہ ویکسین پاکستان میں لگانے سے پہلے ضروری ہے کہ حکومت ویکسین کو کسی اچھے جگہ سے چیک کرائے۔


کورونا وائرس کی اس وقت بہت سی قسمیں آچکی ہیں۔ ان اقسام میں ووہان، برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور برازیل نمایاں ہیں۔ ویکسین اب ہر قسم پر مکمل طرح سے کام نہیں کر سکتی۔آکسفورڈ کی آسٹرا زینکا ویکسین کی تاثیر دو خوراکیں کھانے کے بعد ووہان والی قسم پر 82 فیصد ہے۔ مگر ساؤتھ افریقہ والی ویکسین پر اس کی تاثیر کم ہو کر صرف 22 فیصد رہ جاتی ہے۔

امریکی انسداد کورونا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فوسی کا کہنا ہے کہ کورونا کی اقسام میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ کچھ ویکسین مکمل طور پر ہر قسم کے لیے کارآمد نہیں ہونگے۔ لیکن پھر بھی ہمیں ویکسین زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانی ہے۔اس سے یہ ہوگا کہ وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئے گی اور اس طرح نئے اقسام بھی کم بنیں گی۔ ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق کورونا وائرس میں انتالیس ہزار پوائنٹس پر تبدیلی آسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے مزید کتنی تبدلی وائرس میں آئیں گی۔ ویکسین کی تیاری، اس کے بعد ویکسین کی منصفانہ تقسیم اور نئے اقسام کو روکنا یہ وہ تمام چیلنجز ہیں جس سے آنے والے دنوں یا سالوں میں ہم نبردآزما ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :