
کشمیر کی آواز
پیر 26 اکتوبر 2020

سید حسنین شاہ
برطانوی راج نے ہندوستان کی 560 ریاستوں کے لیے ایک خاص پروٹوکول مرتب دیا تھا۔ جس میں کسی بھی ریاست کے راجہ کو اس کی ریاست کی اہمیت کے بنیاد پر توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ کشمیر کا شمار ان پانچ ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جس کے راجہ کو سب سے زیادہ اکیس توپوں کے سلامی دی جاتی تھی۔ کشمیر قدیم تہذیب کے لحاظ سے وادی سندھ کی تہذیب کے ساتھ منسلک رہا ہے۔اور رنجیت سنگھ کی پنجاب حکومت میں یہ علاقہ بھی شامل تھا۔ برصغیر کی آزادی کے وقت کشمیر پر ڈوگرہ شاہی راج تھا۔ کشمیر کے عوام راجہ سے نا خوش تھے۔ کشمریوں نے 1931 میں ہی ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک شروع کر دی تھی۔ اس لیے یہ تاثر کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجھد 1947 کے بعد شروع ہوئی ایک مغالطہ ہے۔ کشمیر کی جدوجھد کسی رنگ نسل کی بجائے انسانی حقوق کی بنیادوں پر قائم ہوئی۔
1947 میں برصغیر کی آزادی کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے راجہ سے کہا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے۔ راجہ نے ماؤنٹ بیٹن سے کہا کہ وہ ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے راجہ سے کہا کہ تمھاری ریاست کشمیر سمندر سے کافی دور ہے۔اس لیے تمھارے لیے آزاد حیثیت برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ راجہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ ماؤنٹ بیٹن راجہ کو راضی کرنے کے لیے خود کشمیر گیا مگر راجہ نے اس کی بات نہیں مانی اور ماؤنٹ بیٹن نے مایوسی میں راجہ سے کہا کہ تمھارا یہ اقدام برصغیر میں آگ لگا دیگا اور اس کی زمہ داری صرف کشمیر کے راجہ پر ہوگی۔
کشمیر کی آبادی کا 75 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ ریاست پاکستان کے ساتھ بھی منسلک تھی۔اس لیے کشمیری عوام کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ ریاست پاکستان کے ساتھ ہی جائے گی۔مگر راجہ کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں مقبول لیڈر شیخ عبداللہ کی قائد اعظم سے بغض کی وجہ سے کشمیر کا معاملہ پھنس گیا۔ کشمیر میں بھارتی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود ایک کشمیری پنڈت تھے۔اور وہ چاہتے تھے کے جس ملک کے وہ وزیر اعظم ہیں۔ان کی اپنی ریاست ضرور اس کا حصہ ہو۔ ہندوستانی حکومت نے ریاستوں کے الحاق کی زمہ داری سردار پٹیل کو دی تھی۔ مگر کشمیر کے ساتھ لگاؤ کی وجہ سے کشمیر کی زمہ داری خود نہرو نے لے لی تھی۔
اگست 1947 کی تقسیم کے بعد راجہ کی حکومت کشمیر میں برقرار رہی۔ ہندوستان کا دباؤ راجہ پر روز بہ روز بڑھ رہا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ بھی اپنے مخصوص ساتھیوں کے ساتھ مل کرنے راجہ پر بھارتی الحاق کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔ یہ سب باتیں کشمیر میں زبان زدعام ہو چکی تھیں۔ کشمیری ڈر رہے تھے کہ کہیں واقع راجہ ہندستان سے الحاق نہ کر دے۔ اس خوف کے نتیجے میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی مسلح جدوجھد شروع کر دی۔ یہ جدوجھد جب راجہ کے بس سے باہر ہوئی تُو راجہ سے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کر لی۔ ہندوستانی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو سے کہا کہ وہ فوجی مدد صرف اُسی صورت میں کرینگے۔جب راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے۔ اس شرط کی وجہ سے راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارت نے اپنی فوج کو کشمیر میں اُتار دیا۔ پاکستان نے الحاق کو مسترد کیا اور قائد اعظم نے مجاہدین کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو میدان میں اُتار دیا۔ اس جنگ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کی قیادت یعقوب خان کر رہے تھے اور ہندوستانی فوج کی قیادت یونس خان کر رہے تھے۔یہ دونوں رشتے میں بھائی تھے۔اور یعقوب خان آزادی کے بعد پاکستان آئے تھے۔
اس جنگ میں ہندوستانی فوج کو مجاہدین اور پاک فوج کی جانب سے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔حالات ہندوستان کے خلاف ہوئے تُو وہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیا اور ایک قرار داد منظور کروائی۔جس میں کشمیریوں کو ریفرنڈم کے ذریعے خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ کشمیر میں جنگ بندی کے لیے لائن آف کنٹرول کھنیچ دی گئی۔ اور جنت نظیر کشمیر راجہ اور شیخ عبداللہ کی وجہ سے تقسیم ہو گئی۔ ہندوستانی کشمیر میں شیخ عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی مگر جب نہرو سے اس کے اختلافات آئے تو اسے کشمیر کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک عام کانسٹیبل کے ہاتھوں ہتھکڑیاں لگا دیں گئی اور گیارہ سال کے لیے اسے جیل میں بند کر دیا گیا۔ جب دوبارہ 1965 کے جنگ میں اُس کی ضرورت پڑی تو اسے جیل سے نکال کر کشمیر کا وزیر اعلی بنا دیا گیا۔اور ضرورت ختم ہوئی تو پھر ہٹا دیا گیا۔ شیخ عبداللہ جو صرف قائد اعظم سے نفرت کی وجہ سے ہندوستان میں گیا۔وہ اس طرح ہندوستانی حکومت کے ہاتھوں میں کھلتا رہا۔
1972 میں شملہ معاہدے کے نتیجے کے طے ہوا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور ہندوستان دو طرفہ تعاون سے حل کرینگے۔ اس کے بعد ہندوستان خود اس بات سے مکر گیا اور 1994 میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک قانون سازی کے مطابق کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ قرار دے دیا گیا۔ ہندوستان کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے کے خلاف تھا۔ ہندوستان سے اب اگر اقوام متحدہ کی قرار داد کی بات کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے اس پر اب نئی قانون سازی کر لی ہے۔ہماری پارلیمنٹ سپریم ہے اور ہم اپنی پارلیمنٹ کے اقدام کے خلاف نہیں جا سکتے۔
بی جے پی جو بھارت کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس نے اپنے منشور میں 1980 ہی سے یہ بات شامل کی تھی کہ وہ کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کرے گی۔ 1980 سے لے کر 2014 تک یہ بات بی جے پی کے منشور کا حصہ رہی۔ 2014 میں جب نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم بنا تُو اس نے کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کرنے کے لیے ایک مخصوص قسم کی ہوا بنائی۔ اس نے کشمیر مسئلے کی زمہ داری نہرو پر ڈالی اور نہرو کے مقابلے میں سردار پٹیل کو ہیرو کے روپ میں بھارتی عوام کے سامنے پیش کیا جس نے باقی تمام ریاستوں کا بھارت کے ساتھ الحاق کرایا تھا۔اس پروپیگنڈا کے لیے مودی نے سردار پٹیل کا ایک بڑا بت بھی کروڑوں ڈالر لگا کر بنا دیا تھا۔ 2019 کے الیکشن میں اسی بنیاد پر دو تہائی اکثریت لی اور حکومت میں آتے ہی کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس کشمیریوں کی مرضی کے بغیر ختم کر دیا۔ اس قانون سازی کے وقت تمام کشمیری لیڈران بشمول وہ لیڈر جو بھارت کے حامی ہیں اُنہیں بھی گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا۔ بھارتی اسمبلی میں کشمیر سے الیکشن جیتنے والے شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کو بھی گھر میں نظر بند کیا گیا اور کشمیری عوام کا فیصلہ ان کی غیر موجودگی میں دہلی میں کر دیا گیا۔اس کے بعد ایک سال کشمیر میں کرفیو رہا اور لوگوں کی نقل و حمل پر پابندی رہی۔ پھر جب کورونا کے وجہ سے پوری دنیا میں کرفیو لگا تو لوگوں کی نظروں سے کشمیری اوجھل ہوئے۔
اس وقت کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ اسپیشل اسٹیٹس کے ختم ہونے کے بعد کشمیر میں ترقی کی شرح انتہائی حد تک کم ہوگئی ہے۔ شیخ عبداللہ کا بیٹا آج کل یہ کہتا ہے کہ کشمیری اب خود کو ہندوستانی نہیں مانتے۔ پاکستان کا نام تو شرم کی وجہ سے اس کے منہ پر نہیں آتا مگر وہ آج کل چین سے مدد کی اپیل ضرور کر رہا ہے۔ محبوبہ مفتی جو کہ کشمیر کی سابقہ وزیر اعلی ہے ۔اس نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بھارتی ترنگا لہرانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ تب تک ترنگا نہیں لہرائے گی ۔جب تک کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس بحال نہیں ہو جاتا۔کشمیر کا مسئلہ اس وقت عالمی منظر نامے پر آچکا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اس سلسلے میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب وہ تھوڑے بہت کشمیری جو بھارت کے حق میں تھے وہ بھی اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ ہندوستانی حکومت کو کشمیری عوام سے کوئی غرض نہیں۔ ایک ہندوستانی ریٹائر آفیسر یہ کہتا ہے کہ اگر کشمیر اسی طرح 100 سال تک بھی چلے تُو ہم چلانے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہمارا مفاد اسی میں ہے۔ کہتے ہیں کہ بہت بڑے بڑے طوفانوں کا آغاز ایک چھوٹی چیز سے ہوتا ہے۔ طوفان نوح کا آغاز بھی ایک تندور سے ہوا جس میں ایک عورت روٹیاں بنا رہی تھی۔ مودی کے اس اقدام نے کشمیریوں کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اب زمہ داری پاکستانی حکومت پر آتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر بہترین انداز سے اجاگر کریں۔ کشمیریوں کی واحد اُمید پاکستانی حکومت ہے اور حکومت پاکستان کے لیے ضروری ہے کے وہ مودی کے اس اقدام کو ہضم نہ ہونے دے۔
(جاری ہے)
کشمیر کی آبادی کا 75 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ ریاست پاکستان کے ساتھ بھی منسلک تھی۔اس لیے کشمیری عوام کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ ریاست پاکستان کے ساتھ ہی جائے گی۔مگر راجہ کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں مقبول لیڈر شیخ عبداللہ کی قائد اعظم سے بغض کی وجہ سے کشمیر کا معاملہ پھنس گیا۔ کشمیر میں بھارتی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود ایک کشمیری پنڈت تھے۔اور وہ چاہتے تھے کے جس ملک کے وہ وزیر اعظم ہیں۔ان کی اپنی ریاست ضرور اس کا حصہ ہو۔ ہندوستانی حکومت نے ریاستوں کے الحاق کی زمہ داری سردار پٹیل کو دی تھی۔ مگر کشمیر کے ساتھ لگاؤ کی وجہ سے کشمیر کی زمہ داری خود نہرو نے لے لی تھی۔
اگست 1947 کی تقسیم کے بعد راجہ کی حکومت کشمیر میں برقرار رہی۔ ہندوستان کا دباؤ راجہ پر روز بہ روز بڑھ رہا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ بھی اپنے مخصوص ساتھیوں کے ساتھ مل کرنے راجہ پر بھارتی الحاق کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔ یہ سب باتیں کشمیر میں زبان زدعام ہو چکی تھیں۔ کشمیری ڈر رہے تھے کہ کہیں واقع راجہ ہندستان سے الحاق نہ کر دے۔ اس خوف کے نتیجے میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی مسلح جدوجھد شروع کر دی۔ یہ جدوجھد جب راجہ کے بس سے باہر ہوئی تُو راجہ سے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کر لی۔ ہندوستانی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو سے کہا کہ وہ فوجی مدد صرف اُسی صورت میں کرینگے۔جب راجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دے۔ اس شرط کی وجہ سے راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارت نے اپنی فوج کو کشمیر میں اُتار دیا۔ پاکستان نے الحاق کو مسترد کیا اور قائد اعظم نے مجاہدین کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو میدان میں اُتار دیا۔ اس جنگ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کی قیادت یعقوب خان کر رہے تھے اور ہندوستانی فوج کی قیادت یونس خان کر رہے تھے۔یہ دونوں رشتے میں بھائی تھے۔اور یعقوب خان آزادی کے بعد پاکستان آئے تھے۔
اس جنگ میں ہندوستانی فوج کو مجاہدین اور پاک فوج کی جانب سے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔حالات ہندوستان کے خلاف ہوئے تُو وہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ پہنچ گیا اور ایک قرار داد منظور کروائی۔جس میں کشمیریوں کو ریفرنڈم کے ذریعے خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ کشمیر میں جنگ بندی کے لیے لائن آف کنٹرول کھنیچ دی گئی۔ اور جنت نظیر کشمیر راجہ اور شیخ عبداللہ کی وجہ سے تقسیم ہو گئی۔ ہندوستانی کشمیر میں شیخ عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی مگر جب نہرو سے اس کے اختلافات آئے تو اسے کشمیر کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک عام کانسٹیبل کے ہاتھوں ہتھکڑیاں لگا دیں گئی اور گیارہ سال کے لیے اسے جیل میں بند کر دیا گیا۔ جب دوبارہ 1965 کے جنگ میں اُس کی ضرورت پڑی تو اسے جیل سے نکال کر کشمیر کا وزیر اعلی بنا دیا گیا۔اور ضرورت ختم ہوئی تو پھر ہٹا دیا گیا۔ شیخ عبداللہ جو صرف قائد اعظم سے نفرت کی وجہ سے ہندوستان میں گیا۔وہ اس طرح ہندوستانی حکومت کے ہاتھوں میں کھلتا رہا۔
1972 میں شملہ معاہدے کے نتیجے کے طے ہوا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور ہندوستان دو طرفہ تعاون سے حل کرینگے۔ اس کے بعد ہندوستان خود اس بات سے مکر گیا اور 1994 میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک قانون سازی کے مطابق کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ قرار دے دیا گیا۔ ہندوستان کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے کے خلاف تھا۔ ہندوستان سے اب اگر اقوام متحدہ کی قرار داد کی بات کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے اس پر اب نئی قانون سازی کر لی ہے۔ہماری پارلیمنٹ سپریم ہے اور ہم اپنی پارلیمنٹ کے اقدام کے خلاف نہیں جا سکتے۔
بی جے پی جو بھارت کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس نے اپنے منشور میں 1980 ہی سے یہ بات شامل کی تھی کہ وہ کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کرے گی۔ 1980 سے لے کر 2014 تک یہ بات بی جے پی کے منشور کا حصہ رہی۔ 2014 میں جب نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم بنا تُو اس نے کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کرنے کے لیے ایک مخصوص قسم کی ہوا بنائی۔ اس نے کشمیر مسئلے کی زمہ داری نہرو پر ڈالی اور نہرو کے مقابلے میں سردار پٹیل کو ہیرو کے روپ میں بھارتی عوام کے سامنے پیش کیا جس نے باقی تمام ریاستوں کا بھارت کے ساتھ الحاق کرایا تھا۔اس پروپیگنڈا کے لیے مودی نے سردار پٹیل کا ایک بڑا بت بھی کروڑوں ڈالر لگا کر بنا دیا تھا۔ 2019 کے الیکشن میں اسی بنیاد پر دو تہائی اکثریت لی اور حکومت میں آتے ہی کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس کشمیریوں کی مرضی کے بغیر ختم کر دیا۔ اس قانون سازی کے وقت تمام کشمیری لیڈران بشمول وہ لیڈر جو بھارت کے حامی ہیں اُنہیں بھی گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا۔ بھارتی اسمبلی میں کشمیر سے الیکشن جیتنے والے شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کو بھی گھر میں نظر بند کیا گیا اور کشمیری عوام کا فیصلہ ان کی غیر موجودگی میں دہلی میں کر دیا گیا۔اس کے بعد ایک سال کشمیر میں کرفیو رہا اور لوگوں کی نقل و حمل پر پابندی رہی۔ پھر جب کورونا کے وجہ سے پوری دنیا میں کرفیو لگا تو لوگوں کی نظروں سے کشمیری اوجھل ہوئے۔
اس وقت کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ اسپیشل اسٹیٹس کے ختم ہونے کے بعد کشمیر میں ترقی کی شرح انتہائی حد تک کم ہوگئی ہے۔ شیخ عبداللہ کا بیٹا آج کل یہ کہتا ہے کہ کشمیری اب خود کو ہندوستانی نہیں مانتے۔ پاکستان کا نام تو شرم کی وجہ سے اس کے منہ پر نہیں آتا مگر وہ آج کل چین سے مدد کی اپیل ضرور کر رہا ہے۔ محبوبہ مفتی جو کہ کشمیر کی سابقہ وزیر اعلی ہے ۔اس نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بھارتی ترنگا لہرانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ تب تک ترنگا نہیں لہرائے گی ۔جب تک کشمیر کا اسپیشل اسٹیٹس بحال نہیں ہو جاتا۔کشمیر کا مسئلہ اس وقت عالمی منظر نامے پر آچکا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اس سلسلے میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب وہ تھوڑے بہت کشمیری جو بھارت کے حق میں تھے وہ بھی اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ ہندوستانی حکومت کو کشمیری عوام سے کوئی غرض نہیں۔ ایک ہندوستانی ریٹائر آفیسر یہ کہتا ہے کہ اگر کشمیر اسی طرح 100 سال تک بھی چلے تُو ہم چلانے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہمارا مفاد اسی میں ہے۔ کہتے ہیں کہ بہت بڑے بڑے طوفانوں کا آغاز ایک چھوٹی چیز سے ہوتا ہے۔ طوفان نوح کا آغاز بھی ایک تندور سے ہوا جس میں ایک عورت روٹیاں بنا رہی تھی۔ مودی کے اس اقدام نے کشمیریوں کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اب زمہ داری پاکستانی حکومت پر آتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر بہترین انداز سے اجاگر کریں۔ کشمیریوں کی واحد اُمید پاکستانی حکومت ہے اور حکومت پاکستان کے لیے ضروری ہے کے وہ مودی کے اس اقدام کو ہضم نہ ہونے دے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.