فیمنزم اور عورت مارچ

بدھ 17 مارچ 2021

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

آج کل جیسے ہی مارچ شروع ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عورت مارچ کو لے کر ایک عجیب سا طوفان بدتمیزگی کھڑا ہو جاتا ہے۔ عورت مارچ جو سالانہ آٹھ مارچ کو خواتین کے دن کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے تین سالوں سے اس پر بحث اب بہت زیادہ کی جاتی ہے۔ عورت مارچ کی انتظامیہ مارچ کو کامیاب بنانے کیلئے سوشل میڈیا پر کمپین کرتی ہے۔

پھر آٹھ تاریخ کو مارچ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوج ہوتی ہے۔اس طرح مارچ کا مہینہ گزر جاتا ہے۔ لوگوں کو سوشل میڈیا پر نیا مواد مل جاتا ہے اور عورتوں کے حقوق کے علمبردار بھی خاموشی سے اپنا کام کرنے لگتے ہیں اور اگلے مارچ کا انتظار کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم جو بنیادی طور پر ہر چیز کا ریکشن دینے میں ماہر ہے۔ وہ ہر سال یہ گفتگو کرتے ہیں کہ عورت مارچ میں بےحیائی ہوتی ہے لیکن کبھی کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں اور جو نعرے یہ لگاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ مجھے کیا پتہ تمھارا موزہ کہاں ہے۔ اب اگر اس نعرے کو دیکھیں تو یہ ایک قسم کی بیہودگی ہے۔ مگر یہ نعرہ کیوں لگتا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ یہ جانے بغیر اس نعرے پر اگر کوئی تنقید بھی کرنا چاہئے تو صحیح سے نہیں کر سکتا۔ فیمنزم میں ایک تھیوری ہے جیسے کہتے ہیں مائکرو پولیٹکس۔ اس تھیوری کے مطابق کسی بھی بڑے چیز کو ختم کرنے کے لیے چھوٹی سطح پر اس کے خاتمے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

اب اس موزے والے نعرے پر اگر غور کریں تو اس سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اپنی چیزیں خود سنبھال کر رکھیں اور عورت پر بوجھ نہ بنیں۔ مائکرو پولیٹکس کے مطابق فیمینسٹ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی بچے کی تربیت میں یہ بات ڈال دیں تو وہ بڑا ہوکر خود بہ خود عورت کے استحصال سے باز رہے گا۔ مائکرو پولیٹکس کی جہاں تک بات ہے تو یہ واقعی ایک کارآمد طریقہ کار ہے۔

کیونکہ بچہ بڑا ہوکر کیسی زندگی گزرے گا اس کا سارا دارومدار اس کی ماں کی تربیت پر منحصر ہے۔اگر کوئی ماں بچپن میں بچے کو زور سے دروازہ بند کرنے نہیں دیگی تُو بڑا ہوکر وہ بچہ کبھی بھی دروازہ غصے میں تیزی سے بند نہیں کرے گا کیوں کہ اس بچے کے تربیت میں ایک ٹھہراؤ ہے اور اس کی تربیت میں ہی یہ چیز نہیں ہے۔ اس طرح عورت مارچ میں بیہودہ نظر آنے والے بہت سے نعرے دراصل اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ہمیں بات بہت معمولی لگتی ہے مگر اس کے پیچھے سوچ بہت بڑی ہے۔
فیمنزم کے مطابق دنیا میں مردوں کی حکومت کا آغاز تب ہوا جب دنیا میں زرعی انقلاب آیا۔ اس سے پہلے انسان شکار پر زندگی بسر کرتے تھے۔ زرعی انقلاب سے کچھ یوں ہوا کہ اجناس کے ذخیرے بن گئے۔ اس وقت انسانوں کی اوسط عمر 50 سال سے کم بتائی جاتی ہے۔ صحت کی سہولیات نہیں تھیں۔ ایک عورت اپنے زندگی کے دوران اوسطاً دس سے بارہ بچے پیدا کرتی تھی۔

اس لیے وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔اور کاشتکاری میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ اس لیے تب سے دنیا میں مردوں کا کنٹرول آگیا اور عورت صحت کی سہولیات نہ ہونے کے وجہ سے محکوم ہوگئی۔
فیمنزم کی تحریک ابتدا میں ورکنگ کلاس طبقے کی تحریک تھی۔ شروع شروع میں اسے یورپ میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ ان کا مطالبہ ہوا کرتا تھا کہ انہیں برابر کے اجرت دی جائے اور ووٹ کا حق دیا جائے۔

فیمنزم کی پہلی لہر ان نعروں پر مشتمل تھی اور اس سے امیر خواتین تک کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ فیمنزم کی اس تحریک کی وجہ سے سب سے پہلے نیوزی لینڈ پھر آسٹریلیا اور 1918 میں سوویت یونین نے عورتوں کو ووٹ کا حق دے دیا۔ پاکستان میں بھی بیگم رانا لیاقت کی آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن اسی لہر سے متاثر ہو کر بنی تھی۔
فیمنزم کی پہلی لہر کامیاب ہونے کے بعد دوسری لہر میں مخلوط نظام تعلیم،نقل و حمل کی آزادی اور شادی کے خلاف کچھ مطالبات سامنے آئے۔

اس دوران فیمنزم میں شامل لوگوں کے آپس میں اختلافات شدت اختیار کر گئے اور فیمنزم کی دس سے زائد اقسام سامنے آگئیں۔ ان میں سے دو اقسام بہت زیادہ ایک دوسرے کے خلاف تھیں۔ ایک کو sex postive feminism کہتے ہیں جس کے مطابق عورت کو اپنا جسم اُسکی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ اسی فیمنزم کے تحت لگتا ہے۔ دوسری قسم کی فیمنزم کو sex negative feminism کہتے ہیں جس کے مطابق عورتوں کو ان کے جسم میں کشش کی بنیاد پر استعمال نہ کیا جائے۔

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کے بہت سے اداروں کے استقبالیے پر عورتیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ اس فیمنزم کے مطابق یہ عورتوں کا استحصال ہے کہ اُنہیں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ sex positive feminism کے مطابق اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے بیٹھتی ہے تو ٹھیک ہے مگر sex negative feminism کے مطابق یہ عمل صریحاً غلط ہے۔
فیمنزم کی تیسری لہر کا آغاز اس نعرے سے ہوا کہ ایک عورت کو مرد کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ایک مچھلی کو سائیکل کی ہوتی ہے۔

فیمنزم کے اس دور میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس نظریے نے اب ہم جنس پرستوں کے سربراہی بھی شروع کر دی۔ اس تحریک کے نتیجے میں امریکہ میں اوبامہ حکومت کے دوران اور انڈیا میں 2019 میں سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کی اجازت دے دی اور ان کے شادیوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ فیمنزم کی اس لہر میں عورتوں کے لباس کی آزادی اور کام کی جگہ پر جنسی ہرسگی ختم کرنے کرنے کے مطالبات بھی پیش کیے گئے۔

جن پر بہت سے ممالک میں قانون سازی بھی ہوئی۔
موجودہ دور میں می ٹو فیمنزم کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ اس مہم کے تحت عورتیں جنسی ہراسگی کرنے والے کا نام سوشل میڈیا پر ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان میں علی ظفر اور میشا شفیع کا کیس اس کی ایک مثال ہے۔جس میں علی ظفر پر میشا شفیع نے جنسی ہراسگی کا الزام لگایا۔جو اب عدالت میں ثابت نہ ہوسکا اور میشا شفیع کو تین سال کی قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

زیرغور بات یہ ہے کہ پاکستان میں جدید عورت مارچ جو 2019 میں شروع ہوا اس کی انتظامیہ میں میشا شفیع بھی شاملِ تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جو کے دنیا میں انسانی حقوق بلخصوص عورتوں کے حقوق کی سب سے بڑی علمبردار تنظیم ہے۔ اس کے 2020 ایجنڈا کے تین بڑے مقصد تھے۔ پہلا یہ کہ دنیا میں سزائے موت ختم کی جائے۔ عورتوں کے حقوق کے سارے علمبردار جو ریپ کے خلاف ہیں لیکن ملزموں کی سر عام پھانسی تو کیا صرف پھانسی کے بھی خلاف ہیں۔

دوسرا ہم جنس پرستی کے آزادی۔ اس سال عورت مارچ کے کچھ بینر ہم جنس پرستی کے حق میں دیکھے گئے ہیں۔ تیسرا ہے اسقاط حمل کو جائز قرار دینا۔ اس مطالبے کا پہلا غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجہ کچھ مہینے پہلے لاہور میں دیکھا گیا جب ایک سٹوڈنٹ اسقاط حمل کے دوران مر گئی اور میرا جسم میری مرضی کا اسکا ساتھی اسے لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں اُسکی لاش پھینک کر فرار ہوتے پکڑا گیا۔


فیمنزم کی حالیہ لہر سے لگتا ہے کہ پاکستان میں یہ مہم عورتوں کی رہی سہی آزادی بھی چھین لیے گا۔کیوں کہ اب والدین بچیوں کی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے دوران خوف ضرور محسوس کرینگے کہ کہیں ان کی بیٹی ان لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ عورتوں کے حقوق اگر سوال کیا جائے کے پورے ملتے ہیں یا نہیں تو یقیناً جواب نہیں میں ہوگا۔ مگر جو تحریک انہیں حقوق دلانے کے لیے چلائی جارہی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ معاملہ مزید خراب ہوگا۔

پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر حالیہ سالوں میں کافی قانون سازی ہوئی ہے۔ جہز پر پابندی جس میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ان قوانین پر عمل درآمد ضرور ایک سوالیہ نشان ہے مگر کہا جاتا ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا۔ آخری بات یہ کہ کسی بھی چیز پر اختلاف کرنے سے پہلے ضروری ہے اس کے متعلق صحیح سے جان لیا جائے تاکہ آپ کے اختلاف میں اثر نظر آسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :