ورلڈ فزیکل تھیراپی ڈے

جمعرات 9 ستمبر 2021

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

ہر سال ستمبر کی آٹھ تاریخ کو دنیا بھر میں ورلڈ فزیکل تھیراپی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ان عظیم لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ جنہوں نے قلیل مدت میں فزیکل تھیراپی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ اس دن کو منانے کا ایک بنیادی مقصد فزیکل تھیراپی کے فوائد کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ہے۔ کسی زلزلے یا حادثے کے بعد زخمیوں کو بھرپور زندگی کی طرف واپس لانا ہو یا سٹروک یعنی فالج کے مریض کی ریکوری ہو۔

کورونا کے بعد مریض کی سانس کی بحالی ہو، اگر یہ سب کچھ آج دنیا میں ممکن تو یقیناً فزیکل تھیراپی کی وجہ سے ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں کھلاڑی کی فٹنس کو برقرار رکھنا ہو یا بوڑھے افراد کو زیادہ سے زیادہ فٹ رکھنا ہو، فزیکل تھیراپی یہ تمام کام کرنے کے لیے حاضر ہے۔

(جاری ہے)

گویا آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فزیکل تھیراپی انسان کو دوسروں کے سہارے کے بغیر زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔

فزیکل تھیراپی انسان کی خودمختاری کی ضامن ہے۔ اور اس کی وجہ سے اگر انسان فٹ رہتا ہے تو لمبی عمر پاتا ہے۔ اور اس طرح فزیکل تھیراپی اوسط عمر بڑھانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔
فزیکل تھیراپی کی بنیاد پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918 میں پڑی۔ اس وقت اسے رکنسٹریشن ائیڈ کا نام دیا گیا۔ جنگ کے زخمیوں اور 1916 کے پولیو  مریضوں کا کامیاب علاج کرنے کے بعد اس فیلڈ کو بہت سے ممالک نے برقرار رکھا اور اسے ترقی دی۔

پاکستان میں اس فیلڈ کا آغاز 1956 میں 2 سالہ پروگرام سے ہوا جو بعد میں 3 سالہ پروگرام اور بی ایس سی پروگرام کے بعد 5 سالہ ڈاکٹریٹ ڈگری میں تبدیل ہوگیا۔ جیسے ڈاکٹر آف فزیکل تھیراپی(ڈی پی ٹی) کہتے ہیں۔ ڈی پی  ٹی ڈگری آنے کے بعد اس فیلڈ کی پاکستان میں بھی کافی ترقی کی اُمید کی جا رہی تھی۔ مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔
ترقی نہ کرنے کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام میں کورس کو جدید نہیں بنایا جاتا۔

فزیکل تھیراپی ایک نومولود فیلڈ ہے۔ اس لیے اس میں ترقی کی رفتار کافی تیز ہے۔ یہاں پر فزیکل تھیراپی کی جو پہلی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔وہ 1979 میں لکھی گئی ہے۔ 1979 کے نصاب سے 2021 کے میڈیکل کے مسائل حل کرنا نا ممکن تو ہے ہی مگر ایک اچھا مذاق بھی ہے۔اس طرح پاکستان میں فزیکل تھیراپی کے کورس کے حوالے سے کوئی پاکستانی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ جو پاکستانی طلباء کے لیے سمجھنے میں آسان ہو اور وہ کتاب ہمارے لوکل مسائل کو حل کرنے میں مدد دے۔

یعنی ایسی کتاب جس میں لکھی ہوئی ریسرچ پاکستان میں کی گئی ہو۔ مقامی  ریسرچ نہ ہونے کی وجہ سے طلباء اپنے علاقے کے مسائل کے بارے میں نہیں پڑھ پاتے۔ جس کی وجہ سے بعد میں انہیں کلینکل پریکٹس کرتے وقت دُشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کی نگرانی کرنے والا ادارے ایچ ای سی نے فزیکل تھیراپی کو کبھی شفقت کی نظر سے نہیں دیکھا۔

کبھی ان کا کورس اپڈیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور تو اور
ایچ ای سی کی جانب سے فزیکل تھیراپی پڑھانے والے انسٹیٹیوٹ کے لیے کچھ ضابطے طے کیے ہیں۔لیکِن خود اُن پر عمل درآمد نہیں کرواتا۔ فزیکل تھیراپی پڑھانے کے لیے 200 بستر پر مشتمل اسپتال کا ہونا لازمی ہے۔ اس وقت پشاور میں فزیکل تھیراپی کے 10 سے زائد انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں۔ لیکِن پشاور میں 10 ایسے ہسپتال موجود ہی نہیں ہیں۔

ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس کا کالج کھولنے کے لیے بھی ایسی شرائط موجود ہیں۔ وہاں تو جس کے پاس اپنا اسپتال نہ ہو اسے پڑھانے نہیں دیا جاتا۔ لیکِن ڈی پی ٹی میں صرف ہسپتال کے ساتھ ایک کاغذی معاہدہ کر کے آپ انسٹیٹوٹ کھول سکتے ہیں۔ مذاق تو طلباء کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کہ ایک ہسپتال چار پانچ انسٹیٹیوٹ سے پیسے لے کر کھا رہا ہے۔ اس کا انجام یہ نکلتا ہے کہ جب سرکاری یونیورسٹی کے طلباء جن کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں چار سے پانچ گروپوں میں تقسیم کر کے اس ہسپتالوں میں پریکٹس کے بھیجا جاتا ہے۔

تو ان ہسپتالوں میں نجی اداروں کے طلباء بھی موجود ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات طلباء زیادہ ہوتے ہیں اور مریض کم جس کی وجہ سے ہسپتال کے عملے کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اور کئی بار تو طلباء کے ساتھ موجود اساتذہ کو عملہ اچھی خاصی سنا بھی دیتا ہے۔ اس لیے بغیر اپنا ہسپتال بنائے کسی کو بھی صرف ایک ہسپتال کے ساتھ معاہدے پر انسٹیٹیوٹ کھولنے کی اجازت بلکل نہیں ہونی چائیے۔

ان انسٹیٹیوٹ کے سیٹھ غریب طلباء سے سرکاری یونیورسٹی کے مقابلے میں دوگنی فیس وصول کرتے ہیں۔ نہ اپنا ہسپتال بناتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو انکی قدر کے مطابق تنخوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک انہونی ایچ ای سی یہ کر رہا ہے کہ اس نے انجینرنگ کی یونیورسٹیوں کو میڈیکل ڈگری ڈی پی ٹی پڑھانے کی اجازت دے دی۔ اب اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی فزیکل تھیراپسٹ لوگوں سے یہ کہے کہ اس نے انجینرنگ یونیورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ہے۔

نجی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو اگر میڈیکل پڑھانے کی اجازت ہے تو پھر میڈیکل یونیورسٹیوں کو بھی سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز اور فنون لطیفہ کی ڈگریوں کو پڑھانے کی اجازت دی جائے۔ تا کہ یہ یونیورسٹیاں بھی پیسیں كما سکیں۔
فزیکل تھیراپی کو درپیش مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیکل کی یونیورسٹیوں کے جیتنے بھی بورڈ آف گورنرز ہیں ان میں ڈی پی ٹی کا عہدے دار شامل نہیں ہوتا۔

حالیہ دنوں میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور نے ایک سرکولر جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ فزیکل تھیراپسٹ اپنے آپ کو ڈاکٹر نہیں کہہ سکتے۔ یعنی جن کی ڈگری میں لکھا ہے ڈاکٹریٹ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نہیں ہیں تو پتہ نہیں کیا ہیں۔ اب یہ تو یونیورسٹی بتا سکتی ہے۔ اصل بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فزیکل تھیراپی میں ایک بنیادی ریفارم کی ضرورت ہے۔

ریفارم ایسے کے فزیکل تھیراپسٹ کو بورڈ کا ممبر بنایا جائے۔ تا کہ جب فزیکل تھیراپی کے فیصلے ہو تُو فزیکل تھیراپی کا نمائندہ موجود ہو۔
فزیکل تھیراپی کو ترقی دینے کے لیے اس وقت سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ فزیکل تھیراپسٹ ڈگری مکمل کرنے کے بعد صرف فزیکل تھیراپی کی پریکٹس نہ کریں۔ کچھ لوگ بیوروکریسی میں شامل ہو۔ کچھ لوگ میڈیا کا رخ کریں اور کچھ لوگ سیاست  میں قدم رکھیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اسمبلی الائیڈ ہیلتھ سائنسز کا بل پاس ہورہاہے۔ اگر کوئی فزیکل تھیراپسٹ اس وقت اسمبلی میں موجود ہوتا تو اس بل کو وہ کبھی پاس نہ ہونے دیتا۔ خواتین فزیکل تھیراپسٹ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہر پارٹی کو ٹیکنوکریٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میڈیا میں نمائندگی اس لیے ضروری ہے کہ جب خیبر پختونخوا کے طلباء نے 5 دِن رات دھرنا دیا تو اُن کو اس قسم کی کوریج نہ مل سکتی جس کے وہ حقدار تھے۔

بیوروکریسی میں فزیکل تھیراپسٹ کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ فزیکل تھیراپسٹ کی فائل جب کسی ڈیپارٹمنٹ میں جاتی ہے تو سالوں تک وہ فائل بند پڑی رہتی ہے اور اس کے متعلق کسی قسم کی معلومات تک نہیں دی جاتی۔ کسی بھی فیلڈ کو ترقی دینے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ اس فیلڈ کے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوں پھر چاہے وہ میڈیا ہو، بیوروکریسی ہو، سیاست ہو، علم و فضل ہو یا پھر فنون لطیفہ ہو۔

وقت اب آگیا ہے کہ اس فیلڈ کے لوگ ان چیزوں پر سنجیدگی سے غور کریں۔
طلباء کسی بھی فیلڈ کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ فزیکل تھیراپی میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طلباء پڑھتے ہیں لیکن ان سب کو جوڑنے کی کوئی تنظیم ہی نہیں ہے۔ تمام طلباء کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان طلباء کے مابین رابطے کا کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں ہے۔ فزیکل تھیراپی کی ترقی کے لیے تمام طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا انتہائی ضروری عمل ہے۔


فزیکل تھیراپی میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے گولز بہت سارے ہیں۔ آزادانہ پریکٹس کرنی ہے، اپنا کونسل بنانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکِن کوئی قلیل مدتی اور طویل مدتی پلاننگ نہیں ہے۔ سب پہلے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر سال پاکستان کی سطح پر فزیکل تھیراپی کانفرنس منعقد کریں۔ دس سالہ پروگرام بنائیں کہ دس سال میں ہم نے کیا کیا حاصل کرنا ہے۔

اس پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کریں۔ حکومت جس وقت تک فزیکل تھیراپی کا الگ سے کونسل نہیں بناتی۔ اس وقت تک فزیکل تھیراپی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے غیر سرکاری شیڈو کونسل قائم کیا جائے۔ لیکِن یہ کونسل باھمی اتفاق سے قائم کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھول دے۔ ہمیں چند فیصلے کرنے پڑھیں گے کہ آیا ہم نے خود اس فیلڈ کو وہ مقام دلانا ہے جو اس فیلڈ کا ہے یا پوری عمر اسی طرح گزر دینی ہے کہ حکومت ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ ابھی بھی وقت ہے، آج شروع کرینگے تو یقیناً دس پندرہ سالوں میں اس فیلڈ کی قسمت بدل جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :