وہ پھر آگیا

جمعہ 27 نومبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

کورونا ایک بار پھر اپنی شدیت کے ساتھ واپس آگیا۔ ویسے تو کورونا یہی کہیں تھا لیکن جیسے کسی کرکٹ میچ میں پاور پلے کے بعد تیز گیند بازوں کی جگہ سپنر گیند بازی کرتے ہیں اور آخر میں تیز گیند باز واپسی کر کر باؤلنگ کرتے ہیں۔بلکل اسی طرح کورونا کے تیز گیند باز واپس باؤلنگ کرنے کریز پر پہنچ چکےہیں۔ کورونا کی پہلی لہر جب شروع ہوئی اس وقت زبان زد عام کچھ باتیں تھیں کہ یہ سازش ہے يا یہ کہ مغرب چین کی ترقی روکنے کے لیے یہ ڈرامہ کر رہا ہے۔

لیکن اب جب کہ دوسری لہر شروع ہے اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ چین کورونا پر قابو پا چکا ہے مگر مغرب میں اس کی تباہ کاریاں اب بھی اپنے عروج پر ہیں۔پہلی لہر کے بعد پاکستان کے بارے میں بہت سے آزاد اداروں نے کہا کہ پاکستان نے کورونا کو اچھی طرح سے قابو کیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ پڑھ کر میرے ذہن میں سوال آیا کہ آخر ایسا کیا کیا تھا کہ کورونا ختم ہوگیا۔کیوں کہ جس قسم کا لاک ڈاؤن یہاں تھا وہ بھی کافی ممالک کے لاک ڈاؤن سے نرم تھا اور لوگوں کی اکثریت تو کورونا کو ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھی نہ ہے۔

لیکن پھر بھی اللہ نے رحم کیا اور کورونا کی پہلی لہر اختتام پذیر ہوگئی۔
کورونا لاک ڈاؤن میں ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ ہمارے طلبہ طبقے کا علمی شوق اس میں سب سے زیادہ اُبر کر سامنے آیا۔ لاک ڈاؤن میں جب آنلائن نظام تعلیم شروع ہوا تو ٹویٹر پر ٹرینڈ بنے کے آنلائن نظام تعلیم ممکن نہیں ہے اور یہ نظام ہمارے تعلیمی نظام کو تباہ کر دے گا۔ یونیورسٹیوں میں جب یہ آپشن دی گئی کے آپ آنلائن پڑھنا چاہتے ہیں يا یونیورسٹی آکر تو تمام طلبہ نے یونیورسٹی میں کلاسز لینے کا فیصلہ کیا۔

اب جب دوبارہ یونیورسٹی بند ہوگئی ہے۔ توسب وزیر تعلیم کو جنتی قرار دے رہے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔اب یہی طلبہ کچھ دنوں بعد سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائینگے کہ آنلائن نظام خراب ہے۔اور اسے بند کر کے یونیورسٹی کھول دی جائے۔ اس رویے سے ہمیں ایک اندازہ ضرور ہوتا ہے۔یا تو یہ طلبہ اپنی پسند کی ڈگری حاصل نہیں کر رہے یا واقعی میں سب کام چور ہیں۔

اب بات جو بھی سچ ہو مگر ہمارے مستقبل کے بارے میں یہ رویہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔
کورونا بیماری کے لگنے کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ یقیناً ایک وبا بے جو اللہ کی طرف سے ہے۔ اب یہ کسے ہوگی یہ سب اللہ کی مرضی ہے۔ احتیاط یقیناً فرض ہے۔ پورے ملک میں ماسک پہنے پر زور دیا جاتا ہے۔مگر میری ایک دوست جو گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ ماسک پہنتی ہے۔ اس کا چہرہ گھر سے باہر ہمیشہ کے لئے چھپا رہتا ہے۔

ہم میں سے کورونا صرف اسے ہوا ہے۔ تو یہ اللہ کی ایک آزمائش ہے۔ جو اللہ اپنے بندوں پر ڈالتا ہے۔ یہ بات بھی ہمیں پتہ ہے کہ اللہ انسان پر اس کے اوقات سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ کورونا کے بارے میں ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار چل رہا ہوتا بے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ میرے والد صاحب کی اس پر اکثر میرے سے بحث ہوتی کہ یہ جملہ غلط ہے ہم لڑ نہیں سکتے۔

اب میں بھی یہی کہتا ہوں کہ مجھے کورونا سے لڑنا نہیں ہے۔بلکہ مجھے کورونا سے اللہ کے پناہ کا طالب گار رہنا ہے۔
کورونا کی وجہ سے اب ایک بار پھر تعلیمی ادارے اب جیسا کہ بند ہو چکے ہیں۔ طلبہ گھروں پر ہونگے۔ کچھ ایک آدھی آنلائن کلاس ہوگی۔ایسے وقت میں طلبہ کو چاہئے کہ ایک اپنے اس وقت کو بلکل ضائع نہ کریں۔ پچھلی بار بھی طلبہ گھروں میں تنگ اس لیے تھے کہ اُن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔

وہ بس گھر میں اپنے دن گن رہے تھے۔ پچھلا لاک ڈاؤن ضائع ہوگیا مگر اس بار سب ضرور سوچیں کے اس بار ضرور کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ اپنی پسند کے مطابق اپنے وقت کو استعمال کرنا ہے۔ کورونا ایک علمی وبا ہے اور اگر ہم پچھلی عالمی وباؤں پرنظر ڈالیں تو معلوم ہوتا بے کہ وبا ختم ہونے میں کم سے کم دو چار سال ضرور لگ جاتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ لاک ڈاؤن آخری لاک ڈاؤن نہ ہو اور اس قسم کے کچھ اور لاک ڈاؤن ہمارے زندگی میں آئیں۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کے اب کورونا ہمیں زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ جو طلبہ اس وقت یونیورسٹیوں میں ہیں اُن کے کیریئر کا فیصلہ اب اپنی مدد آپ کے تحت ہونا ہے۔ حکومت اپنی پوری کوشش کے باوجود ان حالات میں بہترین تعلیم کے لیے انتظامات نہیں کر سکتی۔ اس لیے مستقبل میں کون کامیاب ہوگا اور کون نا كام اس کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ کس نے لاک ڈاؤن کو بہترین انداز میں استعمال کیا ہے اور کس نے لاک ڈاؤن کے دوران خود کو ضائع کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :