سینیٹ الیکشن

پیر 8 مارچ 2021

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

سینیٹ آف پاکستان کے الیکشن جس طریقہ کار سے ہوتے ہیں اسے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کہتے ہیں۔الیکشن کرانے کا یہ طریقہ کار برطانوی ریاضی دان تھمس ہل نے ترتیب دیا تھا۔ اس طریقہ کار کے مطابق ہر ووٹر کل چار ترجیحی ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ اگر کسی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 100 ہو اور اس میں دو سیٹوں پر مقابلہ ہو رہا ہو تو اس طریقہ کار کے مطابق ایک امیدوار 50 ووٹ لے کر سیٹ جیت سکے گا۔

اس 50 کے عدد کو گولڈن نمبر کہا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی امیدوار پہلی ترجیحی ووٹ میں 50 سے زائد ووٹ حاصل کرتا ہے تو وہ خود تو کامیاب تصّور ہوگا۔ اس کے بعد اس کے ساتھ 50 سے زیادہ جیتنے بھی ووٹ ہونگے وہ دوسرے ترجیحی امیدوار کو ٹرانسفر ہو جائیں گے۔ اس طرح اگر دوسرے ترجیحی امیدوار کے ووٹ پورے ہوگئے اور اسکا گولڈن نمبر پورا ہوگیا تو ووٹ تیسرے ترجیحی امیدوار کو ٹرانسفر ہوگا اور اسی طرح چوتھے ترجیحی امیدوار کو۔

(جاری ہے)

اب صوبائی اسمبلی کے سینیٹ جنرل الیکشن میں اکثر 11 سیٹوں پر مقابلہ ہوتا ہے۔یہاں اگر اپ نے کامیابی حاصل کرنی ہو اور آپ کے ووٹ گولڈن نمبر سے کم ہوں تو آپ مخالف پارٹی کے رکن کو اگر اس پر بھی راضی کر لیں کہ وہ اپنا دوسرا ترجیحی ووٹ اپنی پارٹی کے بندے کی بجائے آپ کو دے اور آپ اس طرح اگر آپ زیادہ سے زیادہ دوسرا ترجیحی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو بھی آپ کی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے۔


اس بار سینیٹ آف پاکستان کے الیکشن حکومت کے لیے انتہائی اہم تھے۔ کیوں کہ دستور پاکستان کے مطابق کسی بھی بل کو قانون کا حصہ بننے کے لیے اس بل کو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور کرانا لازمی ہوتا ہے۔ چونکہ حکومت اور اپوزیشن کی آپس میں نہیں بنتی اور اپوزیشن کی سینیٹ میں اکثریت تھی اس لیے وہ حکومت کو تنگ کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے بلوں کو بھی سینیٹ میں روک دیتے تھے۔

پھر حکومت کو بل منظور کرانے کے لیے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرنا پڑتا اور بل منظور کرنا پڑتا۔حکومت اس الیکشن میں چاہتی تھی کہ ان کے زیادہ سے زیادہ سینیٹر منتخب ہو تاکہ کم سے کم سینیٹ میں بھی اُنہیں سادہ اکثریت حاصل ہو سکے۔لیکن حکومت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ حکومت اسلام آباد کی سیٹ ہار گئی اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادی جی ڈی اے سندھ میں 7 ووٹ کم ملنے کی وجہ سے ہار گئی اور ایم کیو ایم کے فصیل سبزواری اور شیری رحمان کے ووٹ برابر نکل آئے۔

جس کے بعد ٹاس کے ذریعے شیری رحمان کامیاب قرار پائیں۔ اور اس طرح حکومتی اتحاد 3 سیٹیں ہار گئی۔ اس کے علاوہ اس بار فاٹا انضمام کے بعد فاٹا کی چار نشستوں پر بھی انتخابات نہیں ہوئے اور ان سیٹوں کے ساتھ کیا کرنا اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔اب موجودہ الیکشن کے بعد حکومتی اتحاد کے پاس 47 جبکہ اپوزیشن کے پاس 53 سیٹیں ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں اصل مقابلہ اسلام آباد کی سیٹ پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور موجودہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے درمیان تھا۔

عبدالحفیظ شیخ چونکہ اسمبلی کے رکن نہیں ہیں اور وہ آئین کے مطابق صرف 6 ماہ کے لیے وزیر بنے ہیں اس لیے عبدالحفیظ شیخ کا جیتنا حکومت کے لیے بہت اہم تھا۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق کوئی مشیر یا معاون خصوصی ای سی سی کے اجلاس کے صدرات نہیں کر سکتا(ای سی سی میں ملکی درآمدات و برآمدات کے فیصلے ہوتے ہیں). اب یہ عمران خان کے لیے ایک درد سر ہوگا کہ جب حفیظ شیخ کے 6 ماہ پورے ہونگے تُو وہ دوسرے وزیر خزانہ کو لے کر آئیں گے۔

یا کسی سینیٹر سے استعفیٰ دلوا کر حفیظ شیخ کو سینیٹر بنا دینگے۔سینیٹ الیکشن کے دوران یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ایک مبینہ ویڈیو سامنے آئی۔جس میں وہ کچھ اراکین اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں۔ اب الیکشن میں یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ لیے ہیں اور عبدالحفیظ شیخ نے 164۔ اس کے علاوہ کل 7 ووٹ ضائع بھی ہوئے ہیں۔اس کا مطلب کے اگر یہ 7 ووٹ درست ہوتے تُو نتیجہ بدل بھی سکتا تھا۔

حکومت نے علی گیلانی کے خلاف درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ہے۔مگر اس ویڈیو پر کارروائی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کے یہ ویڈیو بنانے والا اس آلہ سمیت حاضر ہو کر قبول نہ کر لے کہ ویڈیو اس نے بنائی ہے۔ ایسی طرح کی ایک ویڈیو مریم نواز نے جج ارشد ملک کی بھی میڈیا کو دیکھائی تھی مگر آج تک ن لیگ نے وہ ویڈیو بھی عدالت میں جمع نہیں کرائی کیوں کہ وہاں بھی ویڈیو بنانے والے اور آلہ جس سے ویڈیو بنی ہے وہ پیش کرنا لازمی ہے۔


الیکشن کے بعد وزیر عمران خان نے قوم سے جو تقریر کی اس میں اعلان کیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 91(7) کے تحت اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینگے۔ آج وہ کارروائی بھی مکمل ہوگئی اور عمران خان کو 178 اراکین اسمبلی نے اعتماد کا ووٹ دے دیا۔ لیکن ان 178 میں سے 7 وہ اراکین ہیں جنہوں نے اپنا ووٹ ضائع کیا اور 10 نے حفیظ شیخ کی جگہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا۔

اپوزیشن نے اس اجلاس کا آج بائیکاٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب چھ ماہ تک کوئی عدم اعتماد کے تحریک اپوزیشن نہیں لا سکتی مگر آئین کے آرٹیکل 95 میں لکھا ہے کہ اگر عدم اعتماد نا کام ہوتی ہے تو اگلے چھ ماہ تک کوئی تحریک نہیں آسکتی۔ آج کا اعتماد کا ووٹ صدر مملکت کے اختیارات کے تحت تھا اپوزیشن کی طرف سے نہیں تھا۔ مطلب یہ کہ اب بھی اپوزیشن صرف 20 فیصد ایوان کے دستخطوں سے عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے۔

مگر عمران خان کے خلاف اگر تو کسی پی ٹی آئی کے ایم این اے نے ووٹ دیا تو وہ الیکشن کمیشن کے جانب سے نے نا اہل ہو جائے گا۔ آئین میں وزیر اعظم کے انتخاب اور بجٹ پر پارٹی لائن کراس کرنے پر نااہلی ہوتی ہے۔اس لیے اگر مستقبل میں بھی کوئی ایسی تحریک آتی ہے تو اس میں بھی اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کی مدد درکار ہوگی۔
سینیٹ کے یہ انتخابات بھی مکمل ہوگئے۔

ایک بر پھر خرید و فروخت کی آوازیں سننے میں آرہی ہیں۔مگر مسئلہ کسی ایک الیکشن کا نہیں بلکہ نظام کا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں اگر پیسہ چلتا ہے یا اگر جیتنے والے کے منہ سے بات کی جائے کے ضمیر کا ووٹ پڑتا ہے۔ تو اگر کسی رکن نے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا تُو چھپ کر نہ دیں۔پارٹی قیادت سے کھل کر کہے کہ یہ امیدوار بدلیں ہم نے اسے ووٹ نہیں دینا۔

اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دینا کوئی غیر جمہوری بات نہیں ہے۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے مواخذے دوران ان ہی کے پارٹی کے سابقہ صدارتی امیدوار سینیٹر میٹ رومنی نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا لیکن سنیٹر میٹ رومنی نے میڈیا پر آکر وجہ بتائی کے میں نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا ہے اور کیوں دیا ہے۔ امریکہ میں بھی پہلے سینیٹ کے انتخاب بلواسطہ ہوتے تھے۔جس کے وجہ سے اُنکا سینیٹ بھی امیروں کا کلب بن چکا تھا۔

لیکن پھر وہاں سینیٹ کا الیکشن بلاواسطہ  کر دیا گیا۔ بلاواسطہ الیکشن کے بعد اوبامہ جیسے کارکن بھی سینیٹر بنا اور پھر صدر بھی بن گیا۔ سینیٹ کے آخری ایکشن میں مقامی ہوٹل میں ویٹر کا کام کرنے والی  Alexandria Ocasio-Cortz سینیٹر منتخب ہوئی۔ پاکستان میں بھی اب وقت کی ضرورت ہے کے سینیٹ کے انتخابات کو بلاواسطہ کر دیا جائے۔ تاکہ ہمارے سینٹ میں بھی پیسوں کے لین دین یعنی ضمیر کے ووٹ کا قصہ ختم ہو کیوں کے جو ضمیر کا ووٹ کچھ دن پہلے عمران خان کے خلاف تھا آج اوپن الیکشن میں ضمیر عمران خان کے حق میں ہوگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :