اُس وقت کشمیریوں کے لئے سب اچھا کہا جارہا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کے لئے سب بُرا کہا جارہا تھا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ 1946ء کا سال تھا۔ ”کشمیر چھوڑ دو تحریک“ زوروں پر تھی۔ کشمیریوں کے رہنماؤں اور لوگوں سے جیلیں بھر چکی تھیں۔ وہ کشمیر کی آزادی چاہتے تھے۔ مہاراجہ کے خلاف کشمیریوں کی اس بیداری کا نوٹس مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو اپنے اپنے انداز سے لے رہے تھے۔
امریکی مئورخ ”سٹین لے والپرٹ“ ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے دنیا کی چار بڑی اتھارٹیوں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے بارے میں بھارتی بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ سٹین لے والپرٹ 1946-47ء میں ”کشمیر چھوڑ دو تحریک“ کے حوالے سے مہاتما گاندھی کی رائے اور مائنڈ سیٹ کے بارے میں اپنی کتاب ”شیم فُل فلائٹ“ میں لکھتے ہیں کہ ”مہاتما گاندھی اپنی روزانہ کی پرارتھنا یعنی دعا میں کہتے کشمیریوں سے پوچھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ انہیں وہی کرنے دینا چاہئے جو وہ چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
حکمران کچھ بھی نہیں ہوتے، ہر چیز عوام ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ جو لوگ گاندھی کی پرارتھنا میں شریک ہوتے وہ ہرشام اُن سے پوچھتے کہ آپ کشمیر کے بارے میں ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ مہاتما جواب دیتے کہ اگر کشمیری لوگ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس سے روک نہیں سکتی۔ انہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے مکمل آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔
اگر انڈین یونین کشمیریوں کو ایسا کرنے سے زبردستی روکنا چاہتی ہے تو انڈین یونین کو ایسا کرنے سے خود رک جانا چاہئے۔ مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے“۔ ڈاکٹر نائلہ علی خان امریکہ کی ”اوکلاہوما یونیورسٹی“ میں وزیٹنگ پروفیسر ہیں۔ وہ 1972ء میں نیو دہلی میں پیدا ہوئیں۔وہ کشمیری ہیں اور شیخ عبداللہ کی نواسی ہیں۔ یعنی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ان کے فرسٹ کزن ہیں۔
ڈاکٹر نائلہ علی خان نے ”دی پارچمنٹ آف کشمیر“ کے نام سے ایک کتاب ایڈٹ کی ہے جس میں ایسے نامی گرامی کشمیری سکالرز اور ریسرچرز کے مضامین شامل ہیں جو کشمیری سوسائٹی میں ایک اتھارٹی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اُن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں جموں یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر ریکھا چوہدری کا ایک تحقیقی مضمون شامل ہے۔
اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ”1946-47ء میں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران جب مہاتما گاندھی کشمیر جانے لگے تو انہوں نے جانے سے پہلے واضح کردیا کہ میں کشمیر کے مہاراجہ کو یہ مشورہ دینے کے لئے ہر گز کشمیر نہیں جارہا کہ وہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرے۔ ریاست کے اصل حکمران ریاست کے عوام ہیں۔ اگر حاکم عوام کا خادم نہیں ہے تو وہ حاکم نہیں ہے۔
کشمیریوں کو اپنا فیصلہ خود کرنا ہوگا“۔ گاندھی کے اِس روےئے پر سٹین لے والپرٹ اپنی کتاب ”گاندھیز پیشن“ میں مزید لکھتے ہیں کہ ”گاندھی جمہوری تھے۔ وہ ہندوستانی مفاد کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے بھی سخت حامی تھے۔ اسی لئے وہ زور زبردستی سے کسی بھی الحاق کے مخالف تھے“۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ہندوستانیوں کے باپو مہاتما گاندھی کشمیریوں کی آزادی رائے کے حق میں تھے۔
تلاش یہ کرنا چاہئے کہ پھر کیا ہوا کہ کشمیر کے نام پر برصغیر میں تاریخی فساد برپا ہوگیا جو گزشتہ 72 برسوں سے جاری ہے جس کے باعث گاہے بہ گاہے دنیا میں ایٹمی جنگ کے خطرے کے الارم بھی بجنے لگتے ہیں۔ اس خوفناک بدنیتی سے پردہ اٹھاتے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک اپنے مضمون ”سعادت حسن منٹو اور جنگِ آزادی کشمیر“ میں لکھتے ہیں کہ ”جس وقت مہاتما گاندھی کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا بول بالا کرنے میں مصروف تھے عین اُس وقت جواہر لال نہرو کشمیری عوام پر بزورِ شمشیر بھارتی تسلط قائم کرنے میں کوشاں تھے۔
چنانچہ انہوں نے اپنی یہ دلی خواہش اپنی کابینہ پر قطعیت کے ساتھ واضح کر دی“۔ سٹین لے والپرٹ بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”جواہر لال نہرو نے مہاتما گاندھی کے پر کاٹ دےئے۔ پنڈت نہرو نے انڈین کشمیر پالیسی کے حوالے سے کسی کی نہ سنی۔ اگرچہ نہرو کے آباؤ اجداد صدیوں پہلے کشمیر چھوڑ چکے تھے مگر وہ اب بھی اپنے آپ کو کشمیری کہلوانے کا رومانس رکھتے تھے اور وہ کشمیر پاکستان کو دینے کے لئے کبھی بھی راضی نہ ہوئے۔
خواہ اس کے لئے ہندوستان کو جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے“۔ بیرسٹر فاروق باجوہ نے لندن سکول آف اکنامکس سے انٹرنیشنل لاء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ وہ برطانیہ میں ایک مشہور انٹرنیشنل لاء فرم کے سربراہ ہیں۔ سی ہرسٹ اینڈ کمپنی (پبلشرز) لمیٹڈ نے 2013ء میں اُن کی ایک کتاب ”فرام کچَھ ٹو تاشقند“ کے ٹائٹل سے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں امریکی اور برطانوی ڈی کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویزات اور انتہائی اہم غیرمطبوعہ انٹرویوز شامل کرکے سیاست، سفارت کاری اور جنگوں کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
کتاب میں جواہر لال نہرو کا ایک خط شامل ہے جو انہوں نے اکتوبر 1947ء میں اُس وقت کے کشمیر کے وزیراعظم سی مہاجن کو لکھا جس کا موضوع ”مستقبل میں ریاست کشمیر کا الحاق“ تھا۔ نہرو نے لکھا کہ ”اگر کشمیر پاکستان کے ساتھ چلا گیا تو اس سے بڑی ٹریجڈی کوئی نہ ہو گی۔ میرے لئے یہ ذاتی اور سرکاری دونوں طرح سے مسئلہ ہے“۔ پروفیسر فتح محمد ملک اپنے مضمون ”سعادت حسن منٹو اور جنگِ آزادی کشمیر“ میں مزید لکھتے ہیں کہ ”مہاتما گاندھی کے قاتل نتھورام کے جانشین نہرو کے جانشینوں کو پاکستان سے دشمنی کی روش پر کاربند رہنے کا درس دیتے چلے آرہے ہیں۔
بھارت میں یہ نسلیں نہرو کی کشمیر پالیسی سے ٹپکنے والے زہر کو پی پی کر جوان ہوئی ہیں۔ جنگ جاری ہے۔ نہ تو کسی کے کان میں مہاتما گاندھی کی آواز پڑتی ہے، نہ ہی کسی کو سٹین لے والپرٹ کے اس تجزیے پر غور کرنے کی فرصت ہے کہ اگر گاندھی ہندوستان کے گورنر جنرل ہوتے تو وہ جناح کے ساتھ معاملات آسانی سے طے کر لیتے“۔ اوپر تحریر کئے گئے چند اور اِن جیسے بیشمار تاریخی حوالوں کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کشمیر کا خوفناک مسئلہ صرف نہرو کی ضد کے باعث ہی معرضِ وجود میں آیا۔
نہرو کی ضد نے کشمیر کو اُن کی ذاتی اور سرکاری ٹریجڈی تو بننے نہ دیا مگر کشمیر کو انسانی ٹریجڈیز کا نشان بنا دیا۔ اس کے بعد موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کرکے اپنے باپو مہاتما گاندھی کے منہ پر جوتی ماری اور تاریخ میں انسانی تذلیل کی بدترین مثال قائم کردی۔ پاکستانی لوگ کشمیر کے ساتھ محبت کرتے ہیں جبکہ بھارتی کشمیر کو اپنی ضد سمجھتے ہیں۔
اِن سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر اور کشمیری ایک حقیقت ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کشمیر کا خوفناک مسئلہ نہرو کی ضد سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جبکہ محبت اور حقیقت بھی پہلے سے زیادہ منہ زور ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج 14 اگست 2019ء کے بعد کے آنے والے دن کشمیر کے لئے ضد، محبت یا حقیقت میں سے کس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں؟