قومی زبان پر سیاسی مشاہیر کی رائے

جمعہ 12 جون 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

تحریک پاکستان، قیام پاکستان، 1973ء کی آئین سازی اور 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین پر نظرثانی تک قومی زبان کی حیثیت کے مختصر پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال ،قائد ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور محترمہ فاطمہ جناح سمیت تحریک پاکستان کی تمام بزرگ ہستیوں اور مشاہیر نے ریاست پاکستان کے لیے قومی زبان کے طور پر اردو کو ہی منتخب کیا۔

اس سلسلے میں جامعات اور سکالروں کے تحقیقی کاموں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ تحقیقی کتاب ”اردو، مشاہیر کی نظر میں“ کو بھی حوالے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے دوران اردو کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس عرصے میں پاکستان کا مطالبہ کرنے والے کسی بھی فرد یا سیاسی جماعت نے نوزائیدہ ریاست پاکستان کے لیے اردو کی بطور قومی زبان مخالفت نہیں کی یا کسی دوسری زبان کو پاکستان کے لیے قومی زبان کا اردو کے ساتھ درجہ دینے کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔

(جاری ہے)

اس نکتے پر غور کرتے ہوئے یہ بات اور بھی اہم ہو جاتی ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں میں سندھ، بلوچستان، این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبرپختونخوا اور پنجاب سمیت سب علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما شامل تھے اور اپنی مختلف مادری زبانوں کا پس منظربھی رکھتے تھے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے اور مختلف لسانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ہی ان اکابرین نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا۔

پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگ اپنے صوبے میں بنگالی کو سرکاری زبان کے طورپر اختیار کرسکتے تھے۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے مشرقی پاکستان کے المیے کی وجہ لسانی مسئلہ بتائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں وقت گزرنے کے ساتھ تاریخی حقائق بہت واضح ہوچکے ہیں جن میں سے پہلی بات تو یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی خواہش کے مطا بق بنگالی زبان کو مطلوبہ مقام دے دیا گیا تھا۔

دوسری اہم بات یہ کہ مشرقی پاکستان کے المیے میں اصل محرکات کچھ اور تھے جن میں غیرملکی طاقتوں کی سازشیں بھی شامل تھیں۔ اس کا برملا اعتراف ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سرعام کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اہم ممالک کی پبلک کی جانے والی سرکاری خفیہ دستاویزات یا ڈپلومیٹک کیبل لیکس ہیں۔ لہٰذا المیہ مشرقی پاکستان میں لسانی معاملے پر تاریخی حوالوں کے ساتھ ریکارڈ کی درستگی ضروری ہے۔

پاکستان کے قیام سے پہلے بھی ریاست قلات (بلوچستان) کی اسمبلی میں اسمبلی کی تمام کاروائی اردو میں ہوتی تھی جس کا تفصیلی ذکر نامور بلوچ ادیب گل خان نصیر کی مشہور کتاب ”تاریخ بلوچستان“ میں کیا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبرپختونخوا کی ماضی کی بعض صوبائی حکومتوں نے صوبے کے سرکاری امور سرانجام دینے کے لیے قومی زبان اردو کو ہی دفتروں میں نافذ کیا جبکہ آزاد کشمیر میں تمام حکومتی معاملات اب تک قومی زبان اردو میں ہی نمٹائے جارہے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد اکتوبر 1951ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی صوبہ بلوچستان کی شاخ کے صوبائی صدر نواب اکبر خان بگٹی مقرر ہوئے۔ اُن کا تقرر انتخاب کے ذریعے عمل میں آیا یعنی ایک سینئر بلوچ رہنما نے بھی قومی زبان اردو کی تنظیمی سرپرستی کی۔ حوالے کے لیے ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی کتاب ”بلوچستان میں اردو“ ملاحظہ ہو۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے وقت تمام قائدین نے اردو کو قومی زبان کے لیے منتخب کیا تھا۔

اس کے بعد 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے تحت ملک کا آئین بنایا گیا۔ آئین سازی کے اس عمل میں اُس وقت کی پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں اور نامور سیاسی شخصیات نے بھرپور حصہ لیا۔ اس فہرست میں وہ سب بڑے او ر محترم نام شامل ہیں جن کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ان بڑی قدآور شخصیات نے 10اپریل 1973ء کو آئین بنایا جسے 14اگست 1973ء کو نافذ کر دیا گیاجو آج تک نافذ العمل ہے۔

اس آئین میں اردو کو ہی قومی زبان قرار دیا گیا۔ گویا آئین سازی کے عمل سے گزرنے والی تمام شخصیات کو اردو کی قومی زبان کی حیثیت پر کوئی اعتراض نہیں تھا جبکہ یہ تمام بزرگ ہستیاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں اور مختلف لسانی پس منظر کے ساتھ تھیں۔ آئین 1973ء پر نظرثانی کے لیے سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی کی قیادت میں ایک نظرثانی کمیٹی قائم ہوئی۔

73ء کی آئین سازی کے بعد آئین پر نظرثانی کا یہ ایک بہت بڑا عمل تھا۔ اس کے لیے سابق چےئرمین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی، ان کی کمیٹی کے تمام اراکین، پاکستان کی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام اراکین سمیت سول سائٹی، وکلاء، دانشور اور میڈیا کی محنت کے بعد 1973ء کے آئین میں 18ویں ترمیم سامنے آئی۔ 18ویں ترمیم کی نظرثانی کے عمل میں حصہ لینے والے تمام اراکین کمیٹی، اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیاں، دیگر علاقوں کے منتخب قائدین، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، وکلاء، دانشور اور میڈیا کے افراد پاکستان کے مختلف علاقوں اور مختلف لسانی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔

ان سب نے بھی قومی زبان کے حوالے سے آئین کی شق 251 میں قومی زبان اردو کو ہی من وعن رکھا۔ گویا اہل دانش اور سیاسی مشاہیر کی رائے میں اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :