یہ پاکستان نہیں پیرس ہے

جمعہ 5 فروری 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

آپ نے دور کے ڈھول سہانے والا محاورہ تو سنا ہوگا۔ یورپ کو ہم اچھی سوسائٹی سمجھتے ہیں اور پاکستانی حالات پر بہت مایوس ہوتے ہیں۔ پاکستان اور یورپ کے تقابلی جائزے کے لیے ہم فرانس کے شہر پیرس کو لیتے ہیں اور چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہم ٹریفک کے سگنل پر رکیں تو بعض اوقات بچے گاڑیوں کی ونڈ سکرین صاف کرنے آجاتے ہیں اور اپنا کام چند سیکنڈ میں ختم کرکے پیسوں کی امید میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ قبل پیرس کی ایک معروف سڑک کے چوک پر اعلیٰ ترین برانڈ کی نئے ماڈل والی ایک مرسڈیز گاڑی رکی۔ مرسڈیز کا یہ برانڈ غریب ملکوں کے سربراہان کو بھی کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسا سوچنا مشکل ہے کہ کوئی پاکستانی پیرس کی سڑکوں پر اس نسل کی ذاتی گاڑی چلاتا ہوا پایا جائے مگر اُس دن چوک پر رکنے والی اعلیٰ ترین برانڈ کی مرسڈیز ایک پاکستانی کی ذاتی ملکیت تھی جو اُس وقت وہ خود چلا رہے تھے۔

(جاری ہے)

گاڑی جونہی سگنل پر رکی، چوک میں کھڑی دس گیارہ برس کی ایک غریب یوگوسلاوین لڑکی دوڑ کر آگے آئی اور ونڈ سکرین کو صاف کرنے لگی۔ وہاں بھی یہ لڑکے لڑکیاں ونڈ سکرین صاف کم اور گندی زیادہ کرتے ہیں۔ اسی لیے اُس پاکستانی نے یوگوسلاوین لڑکی کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ باز نہیں آئی۔ کار کے مالک پاکستانی نے ایک ترکیب لگائی اور کہا کہ اے لڑکی اگر تم ونڈ سکرین گندی کر دو گی تو میرا فرانسیسی باس جس کی یہ گاڑی ہے مجھے نوکری سے نکال دے گا۔

یہ سننا تھا تو لڑکی برا سا منہ بناکر بولی اچھا یہ تمہارے باس کی گاڑی ہے۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ تم جیسی شکل والا اس گاڑی میں کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض اوقات رقابت کی بناء پر مخالفین کی کاروباری جگہوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ پیرس کے کاروباری سکوائر میں ایک بلڈنگ کے سامنے سفید کار رکی۔

اُس میں سے 3افراد اترے اور بلڈنگ کی فلم بنانے لگے۔ دوسری بلڈنگ کی ایک کھڑکی سے اِن تینوں افراد کی مشکوک حرکتوں کا کسی نے نوٹس لیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ جب تک پولیس آئی سفید کار والے تینوں افراد جاچکے تھے۔ پولیس کے اہلکار کسی جرم کا وجود نہ ہونے کے باعث اِدھر اُدھر گھوم گھام کر واپس چلے گئے لیکن 2یا3 دن بعد اُسی بلڈنگ میں رات کو آگ لگ گئی۔

پولیس والے حرکت میں آئے اور 2دن قبل سفید کار کی اطلاع دینے والے اُسی شخص سے پوچھ گچھ کرنے لگے اور آئندہ کسی بھی ایسی صورت میں مشکوک گاڑی کا نمبر نوٹ کرنے کی سخت ہدایت کی۔ ہمارے ہاں دھوکے باز فراڈ کے نئے نئے طریقے سوچتے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا۔ ایک فرانسیسی باشندے نے پیرس کی ایک مشہور کاروباری فرم سے بزنس معاہدہ کرکے ایک بڑی مالیت کا سامان کریڈٹ پر حاصل کرلیا۔

ادھار واپس کرنے کا وقت گزرا اور گزرتا ہی چلا گیا۔ کاروباری فرم نے اُس فرانسیسی باشندے پر دھوکہ دہی کا کیس کردیا لیکن وہ فرانسیسی باشندہ دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ قانون بھی اچھی طرح جانتا تھا۔ فرانسیسی قانون کے مطابق ملزم کا جو ایڈریس ایف آئی آر میں لکھا گیا ہو اگر وہ تبدیل ہوجائے تو کیس مئوثر نہیں رہتا۔ اُس فرانسیسی باشندے نے کاراوان یعنی مکان نما گاڑی خرید رکھی تھی اور وہ ایک فراڈ کرنے کے بعد اپنی گاڑی جوکہ اس کا دفتری ایڈریس تھا کو دوسرے پولیس سٹیشن کی حدود میں لے جاتا تھا۔

اِس طرح اُس کے دفتر کا ایڈریس تبدیل ہوجاتا اور پولیس کاروائی کرنے سے قاصر رہتی۔ ہم اپنے ہاں ٹریفک جام کے مسئلے کو حکومت کے جاہلانہ انتظام کی وجہ سمجھتے ہیں لیکن پیرس میں اکثر اوقات ٹریفک جام کی وجہ سے 35 منٹ کا سفر ساڑھے 3گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ پیر س کے انٹرنیشنل اےئرپورٹ پر کسٹم والے مسافروں کے بیگ سے نقد رقوم چرانے کے کئی مرتبہ مجرم قرار پائے ہیں۔

پیرس کے ایک جدید ہسپتال میں بڑی آنت کے کینسر کے ایک مریض کا آپریشن ہوا۔ بھاری بل ادا کرنے کے بعد مریض گھر منتقل ہوا تو اگلے ہی دن اُسے پیٹ میں شدید درد شروع ہوگیا۔ مریض دوبارہ اُسی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بڑی دلجمعی سے معائنہ کرکے بڑی ڈھٹائی سے بتایا کہ بڑی آنت میں جو ٹانکے لگائے گئے تھے وہ ناقص تھے اس لیے ٹوٹ گئے ہیں۔

ایمرجنسی پر موجود جونےئر ڈاکٹروں نے بڑے مرض والے مریض کا فوری طور پر دوبارہ آپریشن کیا اور پکے ٹانکے لگا دےئے۔ ہسپتال کے بھاری بل ایک مرتبہ پھر ادا کئے گئے لیکن اِس مرتبہ مریض نہیں بلکہ مریض کی لاش گھر گئی۔ پیرس میں ہیروئن کا ایک مشہور سمگلر رہتا تھا۔ وہ اتنا بااثر تھا کہ ایک مرتبہ اُسے سزا ہوئی تو اُس کے ساتھیوں نے اُسے جیل سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار کروا دیا۔

بعدازاں پولیس مقابلے میں وہ ٹانگوں سے معذور ہوگیا اور ویل چےئر استعمال کرنے لگا۔ لوگوں نے اُس کی زندگی میں انقلابی تبدیلی محسوس کی۔ وہ نیک ہوگیا اور پھر اُس پر ہیروئن کی سمگلنگ کا کوئی کیس نہیں ہوا۔ وہ رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔ اُس نے سستے کھانے کا ہوٹل بھی بنایا۔ وہ اپنے سارے کام ویل چےئر پر بیٹھ کر کرتا تھا۔ اُس نے ایک ایسی گاڑی خرید لی جس میں وہ اپنی ویل چےئر فولڈ کرکے رکھ لیتا اور اپنے اگلے رفاعی پراجیکٹ کی طرف روانہ ہوجاتا۔

لوگ اُس وقت بہت حیران ہوئے جب ایک دن اُسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا جسے وہ خود چلا رہا تھا۔ ویل چیئر گاڑی میں رکھی ہوئی تھی۔ گاڑی بری طرح ٹوٹی تو ویل چےئر بھی ٹوٹ گی۔ ویل چےئر کا ٹوٹنا تھا کہ پولیس دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گئی کیونکہ ویل چےئر کے تمام خفیہ خانوں میں ہیروئن بھری ہوئی تھی۔ اِن دنوں پاکستان براڈشیٹ کے معاملے سے دوچار ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر براڈشیٹ خود ایک واضح کمپنی نہیں تھی تو اسے کیس کیوں دیا گیا؟ فرانس میں بھی بہت سی کمپنیاں ایسی کھل چکی ہیں جو فراڈ کے نتیجے میں ڈوبی ہوئی کاروباری رقوم نکلوانے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر اِن کمپنیوں میں آدھے سے زیادہ خود فراڈ ہیں۔ البتہ اِن تک کیس لانے والے اپنے کک بیکس یقینی بناتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :