
جنرل ایوب اور مولوی تمیز الدین اب بھی موجود ہیں؟
جمعرات 25 فروری 2021

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
ان میں مولوی تمیز الدین اور نورالامین بھی شامل تھے۔ میں نے ان سے آئینی مسائل کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا۔
مولوی تمیز الدین نے کہا میں صدارتی نظام حکومت کے سخت خلاف ہوں۔ میں نے پوچھا آپ کو کیا اعتراض ہے؟ وہ بولے مجھے یہ اعتراض ہے کہ مسلم تاریخ میں اکثروبیشتر شخصی حکومت نظر آتی ہے اور ہمارا اپنا سیاسی تجربہ بھی اسی قسم کا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم آزادی اور جمہوریت کے باوجود پھر اسی طرف لوٹ جائیں گے۔ میں نے کہا اگر یہ بات مسلمانوں کے خون میں رچی ہوئی ہوتو آپ اسے کیسے نکال سکتے ہیں؟ بہرصورت کیا آپ ایک مطلق العنان حکمران اور منتخب شدہ صدر میں فرق محسوس نہیں کرتے؟ کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صدر نہیں ہوتا اور کیا امریکہ میں جمہوری حکومت نہیں ہے؟ پھر اس ملک میں جہاں 10یا 15 سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، جن میں مسلم لیگ (اُس وقت مسلم لیگ ایوب خان کی فیورٹ جماعت تھی) کو چھوڑ کر نہ تو کسی کا کوئی قومی نقطہ نگاہ ہے اور نہ ہی کوئی قومی منصوبہ، آپ پارلیمانی نظام جمہوریت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟ ان کی رائے تھی کہ ہمیں ایسا قانون بنا دینا چاہیے کہ ملک میں دو سے زیادہ پارٹیاں نہ بننے پائیں۔ میں نے جواب دیا تمیز الدین صاحب اگر آپ قانون کے ذریعے لوگوں کے ضمیر پر قابو پاسکتے ہیں تو مسلمانوں کو ایک ہی فرقے کا پیرو کیوں نہیں بنالیتے؟ جبکہ مسلمانوں میں کئی فرقے ہیں۔ یاد رکھیے کہ آپ قانونی تدابیر سے لوگوں کے ضمیر کو قابو میں نہیں کرسکتے۔ وہ بولے میں پھربھی پارلیمانی نظام ہی کو پسند کروں گا۔ مایوس ہوکر اور زچ آکر میں نے ان کو ذرا آڑے ہاتھو ں لیا۔ بڑے میاں نے برا نہ مانا۔ نورالامین خاموش رہے۔ میرا خیال ہے وہ اس مباحثے سے الگ رہنا چاہتے تھے لیکن مولوی تمیز الدین بڑے یقین کے ساتھ بولتے رہے اور یہ ان کا سچا خیال تھا، گو غیرحقیقت پسندانہ ہی سہی۔ میں ان کی جرات کا ہمیشہ معترف رہا ہوں۔ اسی طرح ایک زبردست بحث چھڑگئی کہ پارلیمانی نظام حکومت اور صدارتی نظام حکومت میں سے کون سا بہتر ہے۔ مولوی تمیز الدین کی طرح بعض کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام کو کافی مہلت دیئے بغیر رد کردیا گیا ہے۔ غالباً ان کا مطلب یہ تھا کہ اس نظام کی رسی اتنی دراز نہ ہونے پائی کہ اچھی طرح ملک کا گلا گھونٹ دیتی۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم پانچ دس برس اور اس راستے پر چلتے رہتے تو ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔ بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ملک میں بڑی منظم جماعتیں ہوں اور ان کی تعداد تھوڑی ہو اور ان میں سے ہرایک کوئی واضح سماجی اور اقتصادی منصوبہ رکھتی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر ملک میں پانچ یا دس پارٹیاں ہوں تو حرج ہی کیا ہے ہم ملی جلی حکومت تو بناسکتے ہیں لیکن کیا یہی ملک کی بہترین خدمت ہے؟ کیا ملی جلی حکومتیں ایک ترقی پذیر ملک میں مضبوطی کے ساتھ بڑے بڑے فیصلے کرسکتی ہیں اور کیا یہ فیصلے کسی صورت میں ملکی روایات اور رسم و رواج کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں؟ ایک ذمہ دار حکومت رائے عامہ کی متلون مزاجی کی جکڑبند میں نہیں رہ سکتی۔ آپ کو رائے عامہ سے آگے بڑھ کر سوچنا پڑتا ہے اور لوگوں کو اپنی راہ پر لانا پڑتا ہے۔ میرے سامنے دو مقصد تھے۔ قوم کو متحد کرنا اور ملک کو ترقی دینا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک مضبوط نمائندہ اور دیرپا حکومت اور ملکی ترقی کے منظم منصوبوں کی ضرورت تھی۔ قوم کو عزم راسخ کے ساتھ سائنس اور فنی مہارت کے عہد میں داخل ہونا تھا اور اپنے عقیدے اور نظریہ حیات کے لازمی ارکان پر بھی مضبوطی کے ساتھ جمے رہنا تھا۔ یہ کہہ دینا آسان ہے کہ ہمیں ماضی کے ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے عوامل کو دور کردینا چاہیے لیکن عملی زندگی میں ان عوامل سے بچنا دشوار امر ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب ملک میں بڑے بڑے زمیندار موجود ہوں جو ہزاروں رائے دہندگان پراثر ڈال سکتے ہوں؟ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب یہاں پیروں فقیروں کی بہتات ہوجو لوگوں کو ورغلا سکتے ہوں؟ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے، پائیدار حکومت کیونکر بن سکتی ہے جب یہاں کئی سیاسی جماعتیں ہوں جن میں سے کسی کا بھی کوئی قومی فریضہ نہ ہو؟ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب یہاں ابتدائی تعلیم عام نہ ہونے پائے؟ ایک نیا نظام قائم کرنے کے سلسلے میں یہ بڑی آسان بات ہے کہ کوئی انگریزی امریکی یا روسی کتاب اٹھالی جائے اور کہا جائے کہ دیکھو ان لوگوں نے یوں کیا تھا ہم بھی کیوں نہ ایسا ہی کریں۔ سوال یہی ہے کہ کیا یہ کوشش کامیاب ہوگی؟ کیااس سے لوگوں کی دلجمعی ہو سکے گی؟ کیا وہ اسے اپنا کہہ سکیں گے؟ اگر نہیں توپھر یہ ساری کوشش بیکار ثابت ہوگی۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا گیا کہ میرے پیش کردہ آئین کی بنیادی باتیں آپ کو کس کتاب سے حاصل ہوئیں؟ میں نے کہا پاکستان کی کتاب سے۔ اس کی بنیاد وہ علم ہے جو میں پاکستان کے عوام اور پاکستان کی خاکِ پاک کے بارے میں رکھتا ہوں“۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.