
قاتل ریاست۔۔۔ نیازی،شجاع ، گوڈیل
منگل 1 ستمبر 2015

سید شاہد عباس
انصاف کا ایک نیازی اسمبلی میں واپس جانے کی تیاریوں میں تھا تو انصاف کے دوسرے نیازی کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ صد افسوس کے ایوان میں واپس جانے والے نیازی کو بریکنگ نیوز بنا دیا گیا۔
(جاری ہے)
طاہر خان نیازی صاحب کو گھر میں گھس کا نہ صرف ان کی زندگی کی سانسیں ختم کر دی گئیں۔ بلکہ ہچکیاں لیتے انصاف کو بھی وقت نزع تک پہنچا دیا گیا۔ شنید ہے کہ JIT بنے گی ۔ یا کچھ آگے بڑھ کر کمیشن بھی بنا دیا جائے۔ کیوں کہ ہم کمیشن بنانے میں خود کفیل ہیں۔ بلکہ شایدزائد الکفیل ہیں۔ انصاف کے اس قتل کی ریاست ذمہ دار اس لیے ہے کہ ریاست تب تک حرکت میں نہیںآ تی جب تک 150 بچے خون میں نہ نہلا دیے جائیں۔ ریاست اس وقت پہلوتہی برتتی ہے جب تک کم و بیش پندرہ سو ہزارہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ نہ دیا جائے۔ ریاست اس وقت تک مجرمانہ خاموشی سادھے رکھتی ہے جب تک ہر فرقے کی مساجد و امام بارگاہوں کے در و دیوار سرخ نہیں کر دیے جاتے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ، ایک منظم شخص ، اور ایک بہترین انسان۔ دن دیہاڑے گھر میں خون میں نہلا دیا گیا ۔ اب تک یہ ہی پتا نہیں چل پایا کہ حملہ آور ایک تھا یا دو۔ حفاظت کا اتنا بہترین انتظام تھا کہ عینی شاہدین کے بقول حملہ آور نے خانزادہ صاحب سے ہاتھ ملایا اور دھماکہ کر دیا یہ عالم ہے ایک شورش زدہ صوبے کے وزیر داخلہ کی حفاظت کا۔ اب چاہے انہوں نے خود سیکیورٹی نہیں لی یا کوئی اور وجوہات تھیں ایک بہادر انسان بہرحال منوں مٹی میں چلا گیا۔ لیکن دعوے برقرار ہیں ۔ جنگ جیتنے کے بھی اور جنگ لڑنے کے بھی ، شاید ہواؤں میں۔
گوڈیل صاحب ریاستی نااہلی کی تازہ ترین مثال ہیں۔ جو زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں۔ سرِ بازار گولیوں نے ان کے سینے کی آزمائش کر ڈالی وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ان کا مضبوط سینہ گولیوں کا بوجھ جھیل گیا اور سانسوں کی ڈور ابھی بندھی ہے ورنہ اب تک نہ جانے۔۔۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ۔ لکھنے پہ آئیں تو ایسے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ریاست تب تک خواب غفلت میں رہتی ہے جب تک باوردی جرنیل سڑکوں پر شہید نہ کر دیے جائیں۔ ریاست اس وقت تک اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھاتی جب تک کسی سابق وزیر اعظم کو ابدی نیند نہ سلا دیا جائے۔ ریاست اس وقت تک پلوں اور سڑکوں کی تعمیر میں ہی مصروف رہتی ہے جب تک کہ نوبت اس نہج پر نہ پہنچ جائے کہ مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کی جرات کرنے کے بجائے پولیس مقابلوں میں مار دیا جائے۔
ریاست جب جب کمزوری دکھاتی ہے تب تب خونِ انساں ارزاں ہوتا ہے۔ کافی عرصہ گزرا ایک ننھی کلی کا ریپ کر دیا گیا۔ اس پہ ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا " پاکستان کا ریپ" شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اخبارات نے شائع تک کرنے سے انکار کیا کہ کالم کے عنوان میں اچھا تاثر نہیں جا رہا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتی ایک ننھی کلی جس نے کل کو ماں بن کر پاکستان کی نئی نسل کی امین بننا تھا اس کو مسل دینے کو پاکستان کا ریپ نہ گردانا جائے تو کیا کہا جائے؟
جو ریاست اپنی حساس اداروں تک کی حفاظت کرنے سے قاصر ہو اس ریاست میں طاہر خان نیازی جیسے دلیر جج کو گولی سے بھون دینا بھلا کیونکر آسان نہ ہوتا۔ قاتل حسب معمول دنددناتے ہوئے آئے طاہر خان کو گولی ماری اور چلتے بنے وہ بھی بیچ شہر میں۔ نامعلوم افراد آئے۔ نامعلوم گولی انصاف کا خون کر گئی۔
فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ آنا یقینا ملکی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اور اعلیٰ عدلیہ بھی ملکی وقار میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن نہ تو اعلیٰ عدلیہ تک عام آدمی کی پہنچ ہے نہ ہی فوجی عدالتوں میں غریبوں کی رسائی ہو گی ۔ عام آدمی کی رسائی تو طاہر خان نیازی جیسوں تک ہی ہوتی ہے۔ شو مئی قسمت کہ نچلی عدالتوں میں جج کوئی نیازی جیسا بیٹھا ہو تو عام لوگوں کو بھی جلد انصاف کی امید لگ جاتی ہے۔ انصاف کی بنیاد نچلی عدالتیں ہیں ۔ منصف انصاف تب کرئے گا جب اس کا اپنا تحفظ یقینی ہو گا۔آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جب ایک جج کو گھر میں گھس کر بآسانی قتل کر دیا جائے۔ اور فرار کی راہ میں کوئی رکاوٹ ، کوئی ناکہ نہ آئے تو بچ جانے والے جج صاحبان کیسے انصاف کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔
انصاف کے بناء معاشرے جنگل بن جاتے ہیں جہاں ہر کسی کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ اور ایک کی اپنی عدالت۔ کیوں کہ جب معاشرے میں صوبوں میں وفاق کی علامت کو قتل کرنے والے ہیرو کا درجہ پا لیں تو پھر انصاف پہ فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ ایک شخص کو مارنے والا قاتل کہلاتا ہے اسی طرح جو ریاست تحفظ دینے میں ناکام ہو جائے وہ کیوں کر "قاتل ریاست " کہلوانے سے بچ پائے گی؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.