
کربلا ۔۔۔ درسگاہ
منگل 11 اکتوبر 2016

سید شاہد عباس
کربلا ایک عملی درسگاہ نظر آتی ہے۔
(جاری ہے)
مختصراً میدانِ کربلا کا منظر ،،، پراؤ دریائے فرات پہ ہے۔ یزیدیت کے پیرو کاروں نے خیمے اکھاڑنے کا حکم صادر فرمایا۔ جناب عباس جلال میں آ گئے۔ صبر کی تلقین کرتے ہوئے جناب ِ عباس کو خیمے اکھاڑنے کا حکم دے دیا۔ ایک لمحہ تصور کریں اگر سانحہ ء کربلا ایک عام جنگ ہی ہوتی تو عباس علمدار جیسے شبیہء علی کے ہوتے ہوئے کسی کی جرات ہو سکتی تھی کہ یوں سادات سے برتاؤ کرتا۔ مگر نگاہء امام اس معرکہ ء حق و باطل کا اثر قیامت تک دیکھ رہے تھے۔ حبیب سا صحابی کھویا، مسلم ابن عوسجہ سا وفادر کھویا، عباس سا بھائی قربان کر دیا۔ علی اکبر سا جوان نیزوں و پھالوں میں شہید ہوا۔ قاسم سا نوجوان ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ علی اصغر سا تبسم خون میں نہا گیا۔ عون و محمد کی جوڑی بکھر گئی۔ اصحاب کھوئے، اہلبیت شہید ہوئے، مگر پایہ اسقلال میں مجال ہے جو لرزش آ پائے۔ صبرِ شبیری ملائک کو بھی حیران کر رہا تھا۔
ربِ کعبہ نے جب ملائک سے کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے وہ شاید اسی دن کے لیے کہا تھا۔ رب کی رضا ، صبر کی انتہا، جرات کی داستان ،،،،، دوش نبی کے سوار زخمی پیشانی کربلا کی تپتی ریت پہ رکھی ہوئی۔۔۔ بڑھتی تلواریں، دوڑتے گھوڑے، تیز نیزے۔۔۔ مگر مجال ہے جو ایک لمحہ بھی صبر کا دامن چھوڑا اور اپنی تکالیف کا اظہار کیا ہو۔ لاشے بکھر گئے۔ سر نیزوں پہ بلند ہو گئے۔ چادریں لٹ گئیں۔ بیمارِ کربلا کو زیورِ آہن پہنا دیا گیا۔ رب کا شکر کم نہیں ہوا۔ تطھہیر کے وارثان بازاروں میں پھرائے گئے۔ فاسق و فاجر ایک طرف ،،،، عصمت جن کے گھر کی باندی وہ دوسری طرف۔۔۔عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ برداشت کی کب انتہا ہوئی یا خود برداشت بھی حیران کہ الہیٰ یہ کون لوگ ہیں۔ جو اس درجہ صبر کے درجے پہ فائز ہو چکے۔
ہم اپنے عقیدے کے علاوہ دوسرا عقیدہ دیکھنا اور سننا تک گوارا نہیں کر رہے ۔ اسلام کی اصل روح سے انحراف ہمارا معمول بن چکا ہے۔ گریہ و زاری ہم انتہا کی کر رہے ہیں مگر روحِ کربلا سے ہم کوسوں دور ہیں۔ ایک وہ گھرانہ جو اپنے قاتلوں کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھے اور آج ہم جو ایک دوسرے کا گریباں ہاتھ میں لیے اپنے نظریات مسلط کرنے پہ تیار،،، باغِ زہرا کے پھول جو کربلا اور پھر کربلا سے شام کے سفر میں مسلے گئے۔کہ اسلام زندہ رہے۔مگر آج ہم مخصوص نظریات تھام کے بیٹھ گئے ہیں۔ کوئی اسلام کی ایک شاخ پکڑے بیٹھا ہے کوئی دوسری ۔ اور حیران کن طور پر کربلا جو برداشت کی عملی درسگاہ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ ہم اس درسگاہ کا سبق بھول کر باہم دوست و گریباں ہیں۔پوری امت مسلمہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے آپس میں پنجہ آزمائی کر رہی ہے اور کفار فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
کربلا کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کیجیے۔ تا کہ ہم امام عالی مقام کی قربانی کے اصل مقصد تک پہنچ پائیں۔ خود میں برداشت کا مادہ پیدا کریں۔ نہ کے نظریات پہ ایک دوسرے کو گرانا شیوہ بناے رکھیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.