
کون سا نوحہ لکھوں؟
اتوار 26 فروری 2017

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
میں بھلا اب کیا نوحہ لکھوں، جب سخی سرور کا نوحہ نہیں لکھا، جب بری امام سانحے کا ماتم نہیں کیا، جب داتا کے احاطے میں لہو بکھیرنے کا نوحہ پڑھنا نہیں چاہا، جب جیے شاہ نورانی کی دھمال کو اجڑتے دیکھ کر بھی کوئی نوحہ نہیں لکھا، مجھے عبد اللہ شاہ غازی کی زیارت پہ آئے شہدا کا بھئی غم نہیں ، جب مجھے رحمان بابا کے مزار کے تباہ ہونے پہ کوئی نوحہ یاد نہیں آتا۔ تو بھلا میں اب آٹھ سو سالہ قدیم درگاہء لعل شہباز قلند کی آخری آرامگاہ کے عین پہلو میں بکھری بارود کی بو، دیواروں سے چمٹی انسانی باقیات کا نوحہ کیسے لکھ سکتا ہوں۔ نوحے اتنے لکھے کہ اب تو کم پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ماتم اتنا کیا کہ اب تو ہاتھ بھی دکھنے لگے ہیں، آنسو اتنے بہائے ہیں کہ اب تو آنکھیں بھی جلنے لگی ہیں۔ ہم تو ویسے بھی نوحہ خوانی کا فن ہی جانتے ہیں ورنہ ہم یہ نہ پوچھتے کہ جب ہمارے ٹیکس پہ پلنے والے جہازوں میں بیٹھ کر پھرتے ہیں تو زخمی گھنٹوں ہیلی کاپٹرز کا انتظار کیوں کرتے رہے۔ ہمیں صرف آہ و بکا ہی آتی ہے ورنہ ہم کیا یہ سوال نہ کرتے کہ دس ہزار سے زائد جہاں زائرین تھے وہاں کس طرح ایک تیس کلو وزنی بارود کا بوجھ اٹھائے شخص واک تھرو گیٹس سے بھی گزر گیا اور نام نہاد محافظ کچھ نہ کر پائے۔ ہم صرف رونے دھونے والی قوم ہیں ورنہ ہم میں سوال کرنے کی جرات ہوتی تو ہم کیا یہ سوال نہ کرتے کہ جس مزار پر عقیدت مند ہی کروڑوں لٹا دیتے ہیں اس کے قرب و جوار میں کوئی اعلیٰ درجے کا ہسپتال کیوں نہیں بن پایا۔ ہم صرف کمرمیں صافہ باندھ کر میتوں پر رونے والے لوگ ہیں، ورنہ ہم کیا اتنا بھی پوچھنا گوارا نہ کرتے کہ تم جو ہمارے زخموں پہ نمک اپنے کیمروں کے لاؤ لشکر کے ساتھ ڈالنے آئے ہو، تم جو حفاظتی حصار اپنے گرد قائم کیے ہوئے ہماری تیمارداری کو آئے تو یہ حفاظتی حصار جب ہمارے پیسوں سے قائم ہوتا ہے تو یہ ہمارے لیے کیوں نہیں ہوتا۔ ہم بے حس قوم کا حصہ ہیں ورنہ ہم میں احساس ہوتا اگر تو ہم ان کا گریباں نہ چیر دیتے جو بلٹ پروف گھروں سے ، بلٹ پروف گاڑیوں میں، بلٹ پروف شیشے چڑھائے ہماری بے بسی پہ بیان داغنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ ہم میں جرات گفتار بھی شاید مفقود ہو چکی ہے۔ ورنہ کیا ہم اتنا کہنے کی ہمت بھی نہ کرتے کہ وہ کون سی برداشت ہے جس سے تم اب تک کام لے رہے ہو اور خون بہتا جا رہا ہے، کیا ایسی ہی برداشت تم اس وقت بھی دکھاتا جب تمہارا بھائی خون میں غلطاں کر دیا جاتا، یا تمہاری بہنوں کے سہاگ چھن جاتے۔ ہم احساس سے عاری، چپ سادھنے والی قوم ہیں ورنہ ہم یہ سوال تو کرہی سکتے تھے کہ مزاروں پہ حملہ ہو تو مزار بند، درسگاہوں پہ حملہ ہو تو درسگاہیں بند، ہسپتالوں پہ حملہ ہو تو ہسپتال بند، اداروں پہ حملہ ہو تو ادارے بندتو حضور جب سب کچھ بند کرنا ہی آپ کو حل نظر آتا ہے تو پھر یہ جو ادارے اروبوں کھربوں کے فنڈز کا ستیاناس کر رہے ہیں ہمارے ادا کیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے تو وہی ہم تک رہنے دیجیے اور ہم سے ٹیکس نہ مانگیے۔
کون سا ایسا نوحہ اس سانحے پہ اب لکھا جائے جو اثر کر جائے۔ کون سی ایسی آہ لکھی جائے جو کچھ ایسا منظر دکھا دے کہ کوئی بے گناہ خون میں نہ نہائے۔ اب تو نوحے بھی ختم ہو تے جا رہے ہیں۔ آہیں اور سسکیاں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔ آخر کو انسان کب تب آنسو نکالے، بے حسی کا بھی تو آخر کوئی مقام بنتا ہے حضور ، چلیے چھوڑیے ہم اب کوئی نوحہ نہیں کہتے۔ آؤ، میرے عزیز ہم وطنوں مل کر بے حسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ اس چادر سے منہ باہر نکالو گے تو وقت کے آقاؤں سے سوائے دکھ ، افسوس، آہوں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.