
سینئر صوبائی وزیر صاحب میں آپ سے مخاطب ہوں۔۔
ہفتہ 13 اکتوبر 2018

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
کہ نہ صرف کارپٹ بلکہ دونوں طرف زرد لکیر اور درمیان میں سفید حاشیہ کہ جیسے کوئی بھی عالمی معیار کی سڑک ہو۔
ابھی اسی خوش فہمی میں سڑک کی تعریف کرنے پہ دل مائل ہی ہوتا ہے اور چند کلومیٹر کا فاصلہ گزرتا ہے تو ایک دم گاڑی کو جھٹکا لگتا ہے۔ کارپٹ روڈ ایک دم سے ختم ہو جاتا ہے۔ اور کھڈے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ کھڈے آگے جا کے ایک کنکریٹ کی سڑک سے جا ملتے ہیں جو کنکریٹ ہونے کے باوجود اتنی اچھی نہیں۔ حیرانگی تو یقینا ہونا تھی کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ اچھی بھلی کارپٹ روڈ ایک دم سے پرانی روڈ میں دوبارہ سے ڈھل گئی۔ روڈ تو مکمل ایک ہی ہے پھر یہ ادھورا کام کیسے ہوا۔ارئے بھائی صاحب اپنا فائدہ یہاں تک ہی تھا وہ سامنے دیکھیے، میرے ساتھ موجود صاحب نے مسکراتے ہوئے توجہ دلائی۔ " پارک ویو" کادیو قامت بورڈ پہاری پہ آویزاں تھا۔ میں کچھ نا سمجھی میں حیران ہوا تو وہ گویا ہوئے، دیکھیں بھئی، یہ جو آپ پارک ویو کا بورڈ دیکھ رہے ہیں نا یہ اس مضافاتی علاقے میں بننے والی ایک بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے ۔ اور اس سوسائٹی کے روح رواں موجودہ سینئر صوبائی وزیر ہیں (نام شاید بہت سے تو جان گئے ہوں گے نہیں جان سکے تو جاننے کی کوشش کیجیے، اور اگر یہ سینئر صوبائی وزیر اس سوسائٹی کے روح رواں نہیں ہیں تو میرا مخاطب وہ ہیں جو اصل میں روح رواں ہیں)۔ اور یہاں تک انہوں نے یہ علاقائی روڈ خود کارپٹ کروائی ہے۔ میں ابھی ان کے روڈ ٹھیک کروانے کے فیصلے پہ توصیفی جملے ادا کرنے ہی والا تھا کہ وہ صاحب پھر گویا ہوئے، اور انہوں نے یہ سڑک پکی تو کروا دی ہے لیکن وہاں تک ہی جہاں تک ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا داخلی دروازہ ہے ۔ اس سے آگے انہوں نے یہ خدمت خلق چھوڑ دی ہے۔ کیوں کہ جہاں تک ان کی سوسائٹی کو فائدہ ہو سکتا تھا وہاں تک روڈ چنگی بھلی کروا دی گئی ہے کہ ان کی سوسائٹی کا وزٹ کرنے والے کلائنٹ پہ اثر مثبت پڑئے اور اس سے آگے آدھا کلومیٹر سے بھی کم حصہ سڑک کا اس لیے ان صاحب کی توجہ کا حقدار نہ ٹھہر سکا کہ اس سے آگے ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی حد ختم ہو گئی تھی۔
مجھے جو خوشگوار حیرت ایک مضافاتی علاقے کی اتنی اچھی سڑک دیکھ کر ہو رہی تھی وہ لمحوں میں اُڑ گئی اور اس کی جگہ دکھ اور افسوس نے لے لی کہ ہم کس قدر خود غرض ہیں۔ ہم اپنے فائدے کے لیے کیسے کیسے فضول فیصلے کر گزرتے ہیں۔ اب اس فیصلے کو ہی دیکھ لیجیے۔ کہ جہاں تک اپنا فاہدہ تھا ہمارے ان تجربہ کار سیاستدان نے نہ صرف روڈ کو کارپٹ کروا دیا بلکہ جدید سہولیات سے بھی آراستہ کر دیا اور جہاں اپنے مفادات پورے ہو گئے اُس سے آگے چند فٹ کا سڑک کا ٹکڑا بھی ہماری توجہ نہ پا سکا۔ جو سڑک نئی بنی ہے اس کا کریڈٹ بھی اس علاقے کے عوام ان موصوف کو ہی دیتے ہیں اور جو چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹا پھوٹا ہے اس پہ لعن طعن بھی ان ہی صاحب کو کرتے ہیں۔
عرض صرف اتنی سی ہے کہ جناب آپ کے لیے فرق نہیں پڑتا لیکن آپ اگر وہ چھوٹا سا بچ جانے والا ٹکڑا بھی نیا بنوا دیتے تو علاقے کے لوگوں کی کچھ بہتری ہو جاتی لیکن آپ یہ سوسائٹی جب امراء، روؤسا، اشرافیہ کے لیے بنا رہے ہیں تو آپ کو علاقے کے لوگوں کی کیا پرواہ اور شاید آپ کے مستقبل کے لے آؤٹ پلان میں یہ علاقے کے مکین موجود ہی نہ ہوں۔ لیکن ان سینئر صوبائی وزیر صاحب سے بطور خاص مخاطب ہوں کہ اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیجیے۔ اور یہ چند فٹ کا بچ جانے والا ٹکڑا بھی نیا بنوا دیجیے۔ کہ اربوں روپے خرچ کر کے سوسائٹی بنا رہے ہیں تووہاں نظر کرم بے چاری عوام پہ بھی ہو گئی تو کوئی حرج تو ہے نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.