غریب کا ٹائم نہ جانے کب آئے گا

پیر 26 اگست 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

معاشرے کی تشکیل حکمرانوں کی اندازِ حکمرانی کی محتاج نہیں ہوتی۔ معاشرہ منفی یا مثبت کوئی بھی روش اپناتا ہے تو وہ معاشرتی اکائیوں کی مدد سے پاتا ہے۔ عوام، خواص، ارباب اختیار، سرمایہ دار، مزدور سب معاشرے کی اکائیاں شمار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی اگر یہ کہے کہ معاشرہ حکمران بناتے ہیں، یا یہ کہے کہ صرف عوام ہی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں تو سراسر غلط ہے۔

اسی طرح اکیلا سرمایہ دار یا مزدور بھی معاشرے کی تشکیل نہیں کر پاتا۔ تمام اکائیاں ایک ربط میں آپس میں جڑ جاتی ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے جب ان اکائیوں کا باہمی ربط ہموار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار مزدور کا خیال کرتا ہے،خواص عوام کے حقوق کا خیال کرتے ہیں، حاکم رعایا کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتا ہے۔

(جاری ہے)

اور معاشرہ منفی رجحانات اپنانا شروع کردیتا ہے اگر انہی اکائیوں کا باہمی ربط نا ہموار ہو، الجھا ہوا ہے۔

یعنی سرمایہ دار مزدور کا استحصال شروع کر دے، خواص عوامی خواہشات کو کچلنا عادت بنا لیں، حکمران رعایا کو ضروریات و حقوق دینے کے بجائے ان کے حقوق غصب کرنا شروع کر دیں۔
معاشرہ مثبت یا منفی طرزِ عمل اپناتا ہے تو ہمارے مجموعی رویے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مثبت معاشرتی رجحانات ہمارے رویوں پہ مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ ہم نرم لہجہ اپناتے ہیں، صلح رحمی سے کام لیتے ہیں، درگزر کی عادت اپناتے ہیں، دوسروں کی مدد کا جذبہ پاتے ہیں۔

اس کے برعکس منفی معاشرتی رجحانات ہمارے مجموعی رویوں کو منفی سمت میں ڈال دیتے ہیں۔ بہادر آباد میں پندرہ سالہ ریحان ہمارے معاشرے کے بڑھتے ہوئے انہی منفی رویوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اور دکھ اور حیرت کا لمحہ ہوتا ہے جب ہم منفی رویوں کا دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ریحان ایک چور تھا، اس نے چوری کی تھی، وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، یہ تمام بیانات گاہے بگاہے سننے کو ملے۔

ہم گواہی کسی کے کردار کی نہیں دے سکتے کہ وہ کیسا تھا لیکن ہم ایک اسلامی نظریاتی ملک میں رہتے ہیں۔ اس ملک میں ایک آئین موجود ہے۔ آئین نے قانون کو ایک راستہ دیا ہے معاشرتی برائیوں سے نمٹنے کا۔ جہاں پر امن شہریوں کے حقوق بتائے گئے ہیں وہاں پکڑے جانے مجرموں کے لیے بھی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ملزم سے مجرم بننے کا راستہ بھی قانون کے مطابق بیان شدہ ہے۔

کس کو کیا سزا دینی ہے، قانون و انصاف کی راہداریوں میں علی الاعلان ایک باقاعدہ نظام قائم ہے۔ اور مثبت معاشرہ تشکیل ہی تب پاتا ہے جب باقاعدہ کوئی نظام ہو۔ مجھے کوئی ایسا معاشرہ اب تک نہیں یاد کہ جہاں ہجوم کو یہ اختیارات ہوں کہ وہ شبہ ظاہر کرئے، پکڑے، تشدد کرئے، برہنہ کرئے، اور جان سے مار دے۔ اگر ایسا ہونا شروع ہو جائے تو پھر جنگل میں اور انسانی معاشرے میں فرق کیسے کیا جائے گا؟
اس بات سے غرض نہیں کہ پندرہ سالہ ریحان جرم کا مرتکب ہوا تھا یہ نہیں۔

ہجوم کے پاس کون سا اختیار تھا کہ وہ اس کے جرم کا فیصلہ کرئے؟ ریحان نے اگر چوری کی بھی (جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کی یا نہیں) تو اس کی سزا قانون میں دی گئی ہے، عدالتیں کھلی ہیں، وہ اس کا فیصلہ کریں گے کہ چوری پہ اُسے کیا سزا ملنی چاہیے تھی۔ چوری سے بڑا جرم تو ہجوم نے خود انصاف کرتے ہوئے کر دیا۔ اک جان لے لی۔ قتل کر دیا۔ اب وقت ثابت بھی کر دئے کہ پندرہ سالہ مرنے والا چور تھا بھی تو ہجوم میں شامل افراد قتل کے الزام سے کیا بچ پائیں گے؟ قانون جہاں چوری کی سزا دیتا ہے، وہیں قتل کی سزا بھی تو یہی قانون دیتا ہے۔


ریحان کی ٹی شرٹ پہ ایک فقرہ تحریر تھا کہ "اپنا ٹائم آئے گا" ۔ معاشرے کی ستم ظریفی پہ آنسو بہانے والے کہتے ہیں کہ یہ پیغام اچھے وقت کے لیے تھا۔ نہیں، یہ پیغام ہے ہی اس کی موت کے بعد کے لیے۔ آج مفلس، نادار، غریب افراد منفی معاشرتی رویوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ کل کو اگر حقیقتاً کوئی لہر ایسی اُٹھی کہ ان مفلسوں کے ہاتھ مضبوط گردنوں تک پہنچے تو شاید اس وقت وہ یہ فقرہ ادا کریں گے۔

آج اس ایک جان کے جانے پہ مدافعین سامنے آ گئے ملزمان کی طرف سے بھی۔ لیکن اگر ہم نے ان رجحانات کا قلع قمع نہ کیا تو کل کو غریبی امیری کی تمیز ختم ہو جائے گی۔ اور لوگ ایک دوسرے کو چوراہوں پہ ننگا کر کے جان لے رہے ہوں گے۔ یہ معاشرہ اپنی اکائیوں سے تشکیل پاتا ہے۔ ہم اس معاشرے کی اکائیاں ہیں۔ اگر ہم ہی اس معاشرے کو برباد کرنے پہ تل جائیں گے تو آنے والی نسلوں کو کیا دیں گے۔


بطور مجموعی ہم ہجوم ہیں قوم نہیں۔ ہم برداشت اور درگزر سے عاری معاشرہ بناتے جا رہے ہیں۔ اور آج ہم یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ اگر ہم آج اپنے غصے و کہر کا شکار کسی دوسرے کو بنا رہے ہیں تو کل کو یہی رجحانات ہماری جانب پلٹ کے نہیں آ سکتے۔ ہم دل سخت کرتے جا رہے ہیں اور یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے سخت دل کے باوجود ہمیں نرم لہجے ملیں گے۔معاشرہ مثبت راہ پہ پروان چڑھائیے۔ ایسا نہیں کریں گے تو آج ہم جو بوئیں گے وہ کل کو کاٹنا بھی پڑے گا۔ ہاتھوں سے ڈالی گئی گرہیں کل کو دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔ اور ضروری نہیں کہ یہ گرہیں ہم کھول سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :