نام نہ لینا ۔۔۔

جمعرات 27 جون 2019

Syed Shakeel Ahmad

سید شکیل احمد

قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم عمران خان کے لیے سلیکٹیڈکا سابقہ استعما ل کرنے پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پابندی عائد کردی ، اس پا بند ی کے باے میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا موقف ہے کہ اس لفظ کے استعما ل سے ایو ان میں جو جو د ہر ممبر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتاہے اور کسی بھی ممبرکے لیے سلیکٹیڈ لفظ کا استعمال اس ایو ان کی توہین کے مترادف ہے ۔

گزشتہ اتوار کے روز منعقدہ بجٹ اجلا س کے دوران حزب اختلا ف کے کئی ارکا ن کی طر ف سے با ر بار اس لفظ کے استعمال کے بعد وفاقی وزیر عمر ایوب خان نے ڈپٹی اسپیکر کی توجہ اس امر کی طرف دلائی اور کہا کہ ایو ان عوام کا منتخب کر دہ ہے اور وزیر اعظم کو بھی عوام کے منتخب کر دہ ایوان کے ذریعے ہی منتخب کیا جا تا ہے اس لیے کسی کے لیے سلیکٹیڈ کا لفظ استعمال کرنا ایو ان کی توہیں کے زمرے میں آتاہے چنانچہ ڈپٹی اسپیکر نے تنبیہ کرتے ہو ئے مبران اسمبلی کو اس لفظ کے استعمال سے گریز کا کہہ دیا ۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم کے ساتھ سب سے پہلے سلیکٹیڈکا لفظ پاکستان پیپلز پا رٹی کے رہنما ء بلا ول بھٹو نے عمر ان خان کے وزیر اعظم منتخب ہو نے پر قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں جو ڑا تھا کہا جا تا ہے اس موقع پر کئی ارکا ن اسمبلی نے سلیکٹید لفظ کی ادائی پر ڈیسک بجائیں تھیں ، بلا ول بھٹو نے اسمبلی میں کسی کے لیے بھی سلیکٹیڈ کا لفظ استعمال کر نے پر پا بندی لگا نے کی مخالفت کر تے ہوئے کہا کہ جب انھو ں نے یہ لفظ استعمال کیا تھا تب خود عمر ان خان نے بھی تالیا ں بجائیں تھیں واللہ علم بالصواب، بہر حال پارلیما نی تاریخ میں یہ ہو تارہا ہے کہ مخالف ممبر ایک دوسرے کو طنزیہ طور پر یا پھر ازراہ تفنن کے لیے کسی نا کسی لقب کے ساتھ یا د کر جا تے ہیں لیکن اس میں پا رلیما نی آداب کا لحاظ رکھا جا تا ہے ۔

بلا ول بھٹو نے یہ لفظ استعمال جس انداز میں کیا گو کہ اس بارے میں یہ تو کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ کوئی غیر پا رلیمانی لفظ نہیں ہے مگر کہا جا تا ہے کہ الفاظ خود نہ تو اچھے ہوتے ہیں نہ ہی برے مگر ان میں پوشید ہ عمل ہی الفاظ کو اچھا یا برا بنا دیتے ہے ۔چنا نچہ بلا ول بھٹو نے سلیکٹیڈ وزیر اعظم کا لفظ حز ب اختلا ف کی جا نب سے عام انتخابا ت پر جس عدم اعتما د کا اظہار کیا تھا اسی تنا ظر میں ادا کیا تھا اور جو سیا سی حلقو ں میں مقبولیت کا درجہ پا گیا تھا ، تاہم عمر ان خان نے ایک پرکھے ہوئے سیا ستدان کی طر ح اسمبلی میں کبھی بھی ردعمل نہیں دیا البتہ ایک جلسہ میں انھو ں نے بلا ول بھٹو کو صاحب کہنے کی بجا ئے صاحبہ کہہ کرپکا را جس پر پی پی اور دوسرے سیا سی حلقو ں میں بڑی لے دے کی گئی ۔

اس ردعمل کے بعد پی ٹی آئی کے مخالفین کثر ت سے سلیکٹیڈ کا لفظ عمر ان خان کے لیے استعمال کر نے لگے حتٰی کے حزب اختلا ف کے ارکا ن نے اسمبلی کے اجلا سو ں میں بھی اس لفظ کا استعمال معمو ل بنا ڈالا ۔ گو کہ وزیر اعظم کے لیے اس لفظ کے استعمال کی اخترا ع بلا ول بھٹو کی جا نب سے ہوئی تھی مگر دیگر سیا ست دانو ں نے بھی اس لفظ کو مخالفانہ انداز میں خوب اچھالنا شروع کر دیا حتٰی کہ مسلم لیگ کی سنئیر نا ئب صدر مر یم نواز نے بھی اپنی ٹویٹس میں اس لفط کا گاہے بگاہے استعمال جاری رکھا ۔

اس میں شک نہیں کہ حزب اختلا ف کے رہنماوٴں کی جا نب سے مسلسل اس لفظ کا ستعمال کا واحد مقصد یہ ہی نظر آیا کہ عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ مو جو دہ حکومت منتخب نہیں بلکہ عوام پر مسلط کر دہ ہے علا وہ ازیں پی ٹی آئی کے رہنما وٴں کے لیے ایک طعنہ بھی دینا مقصود کر لیا گیا ،پارلیمان کی یہ روایت ہے کہ معزز ارکین انتہا ئی مخالفت کے باوجو د ایو ان میں کوئی غیر مہذب لفظ اد انہیں کیا کرتے چاہے اسمبلی میں ان کے ساتھ حسن سلوک پر فرق بھی پڑ رہا ہو مثال کے طورپر ایک مرتبہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے حزب اختلا ف کے کئی ارکا ن جن میں مو لا نا مفتی محمود  مرحوم بھی شامل تھے سیکو رٹی کے اہلکا ر و ں کے ذریعے ایو ان سے زبردستی اٹھوا کر باہر بھیجوا دیا تھا جو آج تاریخ کا حصہ ہے اور آج تک کسی نے اس واقعہ کی حما یت نہیں کی ،چنا نچہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور وفاقی وزیر عمر ایوب خان کا مئو قف یکسر طور پر درست ہے تاہم اس امر کا بھی جائز لینا چاہیے کہ ایو ان کے معزز ارکا ن کے لیے حکومتی اطراف سے بھی کچھ الفاظ استعما کیے جا تے رہے ہیں جو قطعی غیر پارلیمانی ہی نہیں بلکہ اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے جس میں چور ، ڈاکو کی بھی لفاظی شامل ہے ۔

جہا ں تک سلیکٹیڈ لفظ کا تعلق ہے کہ یہ غیر پارلیما نی ہے یا نہیں اس پر سوال اپنی جگہ ہے لیکن ادائی الفا ظ کی نیت کے پس منظر کو بھی دیکھنا ہو گا ۔ بہر حال ڈپٹی اسپیکر نے ایک روایت کا آغا ز کیا ہے اب ان کو چاہیے کہ وہ چور ، ڈاکو ، اور غدار جیسے الفاظ کو جو کسی الجھن کے غیر پارلیما نی ہی نہیں بلکہ گالی کے زمر ے میں آتے ان کے استعمال کی جانب توجہ دیں ، ادھر سابق صدر پا کستان اورپی پی کے شریک چیئر مین آصف زرداری نے کہا ہے کہ سلیکٹیڈ لفظ پر پا بندی کے خلا ف پا رلیمنٹرینزسے مشاور ت کریں گے اور پتہ کر یں گے کہ حکومت ایسے لفظ پر پا بندی لگا بھی سکتی ہے یا نہیں ، چلیںآ صف زرداری کی قانو نی کا وشوں کے ذریعے یہ بات کھل جا ئے گی کہ سلیکٹیڈ لفظ غیر پارلیما نی ہے یا نہیں ہے ۔

تاہم یہ بات درست ہے کہ الفاظ کو غیر پا رلیما نی یا پارلیما نی قرار دینا حکومت یا اسپیکر کا صوابدیدی اختیا ر نہیں ہے ، آخر میں چلتے چلتے یہ اس حقیقت کا بھی بیا ن ہو جائے کہ زبردستی کی پا بندیا ں کبھی کا رگر ثابت نہیں ہوا کرتیں ، ایک مشہو ر واقعہ ہے کہ جسارت اخبار کے ایڈیڑ صلا ح الدین  مرحوم کو بھٹو مر حوم کے دور میں زندان میں ڈال دیا گیا تھا اور کوئی بیس بائیس کے لگا بھگ ان پر مقدما ت قائم کردئیے گئے تھے ، چنا نچہ جب بھی صلا ح الدین مرحوم کی عدالت میں پیشی ہو تی تو اس مو قعہ پر ان کے چاہنے والے صحافیو ں کا ایک گروپ اور دوسرے چاہنے والے بھی عدالت پہنچ جا تے تھے اس مو قعہ پر یہ حاضرین صلا ح الدین مرحوم کے لیے زندہ باد اور بھٹو مر حو م کے لیے مر دہ با د کے نعر ہ بھی بڑے جو ش میں لگا تے تھے چنا نچہ حکومتی وکیل کی شکا یت پر عدالت کے سربراہ نے کسی کا بھی نا م لے کر نعرے بازی پر پا بندی لگا دی جس کے بعد سے مرحوم صلا ح الدین  کے چاہنے والو ں نے کچھ اس طر ح نعرے بازی شروع کر دی کہ نا م نہ لینا مردہ باد ، نا م نہ لینا زندہ با د اورجب تک صلا ح الدین مرحوم کی پیشیا ں ہو تی رہی ۔

ایک ہجو م احاطہ عدالت میں یہ نعرہ بازی کر تا رہا کہ نا م نہ لینا زندہ باد ،اور نا م نہ لینا مر دہ باد ۔ اس کا بہتر طریقہ یہ تھا کہ اسپیکر ایک غیر جا نبدار حثیت کا حامل ہو تا ہے اور ایو ان کے تما م ارکین کے لیے پر اعتما د ہوتا ہے انھیں چاہیے کہ اس بارے میں دوطرفہ افہا م وتفہیم سے کوئی فیصلہ کرلیتے اگر چہ حزب اختلا ف کی جا نب سے اسپیکر کے رویے پرکبھی کبھی تحفظات کا اظہا ر ہو تا جا تا ہے لیکن پھر بھی اسپیکر مفاہما نہ طرز عمل سے حالا ت کو بہتر بنا نے میں اپنا کر دار اداکر لیتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :