غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں

جمعرات 24 جون 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

حالیہ دنوں میڈیا پر لاہور میں واقع مدرسہ کے ایک طالب علم سے منتظم مفتی عزیز الرحمن کے قبیح فعل پر بحث مباحثہ عروج پر ہے۔ مدارس ، مفتیان اور علمائے کرام پر سیکولر اور لبرلز عناصر تنقید کے نشتر چلانے میں حد سے بڑھ رہے ہیں حتیٰ کہ دبے الفاظ میں مذہب اسلام کے خلاف بھی بغض نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں دریں اثنا وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں خواتین کے مختصر لباس کو ایسے غیر اخلاقی اور حیوانی افعال کا محرک قرار دیا ہے نام نہاد مفتی سے سرزد ہونے والے جرم اور وزیر اعظم کے انٹرویو کا کوئی تعلق نہیں ہے تاہم مذہب اسلام پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے اور میرا جسم میری مرضی جیسے تعفن شدہ بیانیے کا پرچار کرنے والے نام نہاد لبرلز دونوں ایشوز کی آڑ میں آفاقی اور سچے مذہب اسلام پر وار کر رہے ہیں ایسے میں مذہب کا لبادہ اوڑھے چند کم فہم لوگ مفتی کی حرکت کی حمایت میں کھل کر سامنے آرہے ہیں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جو مفتی نے کیا اسے کسی طرح درست ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک مفتی کی برائی اور جرم میں سب مفتیان اور علمائے کرام کو شریک بنانے کی کوشش کرنا اور واقعہ کو بہانا بنا کر مذہب پر انگلیاں اٹھانا بھی انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے تمام مدارس اور ان کے منتظمین مفتی عزیر الرحمن جیسے نہیں مفتی کے دفاع میں سامنے آنے والے بھی اپنے جذبات اور الفاظ کی ادائیگی پر قابو رکھیں۔

(جاری ہے)

تنقید کرنے والے بھی صرف مفتی کے فعل بد کو برا اور غلط کہیں جسے کسی مذہب کی روح سے  کسی بھی صورت درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور رہی بات وزیر اعظم عمران خان کے انٹرویو کی تو ان کی صحیح بات کو اس لیے غلط قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کا بیان اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے سیکولر لوگ عمران خان کے ماضی کو کھنگال کر کچھ تصاویر وائرل کر رہے ہیں اور ان کے کردار سے متعلق تاریخ کے بخیے ادھیڑ رہے ہیں کسی انسان کا ماضی جیسا بھی ہو اس کا زمہ دار وہ خود ہوگا کسی دوسرے کے کردار و افعال یا ماضی سے متعلق ہم نے کسی جگہ جواب دہ نہیں ہونا لیکن درست بات کو درست کہنے کی ہمت ہونی چاہیے کسی کے قول یا فعل پر اپنی سوچ کے مطابق نہیں بلکہ غیر جانبداری سے غور کرنا چاہیے اگر ہمارا پسندیدہ انسان غلط بات کرے تو غیر جانبداری سے اسے غلط کہا جائے اور اگر ہمارا دشمن درست بات کرے تو اس کو صحیح کہا جائے ایسے ہی معاشرے میں عدل اجتماعی کا بول بالا ہوگا اور ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :