گالم گلوچ ونگ

ہفتہ 2 اکتوبر 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

ماضی میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے زیر انتظام کارکنان کی تربیت کے لیے فکری و علمی مجالس اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جن میں کارکنان کو جماعت کے قیام کے اغراض و مقاصد اور منشور سکھائے جاتے اور عملی جدو جہد کی ترغیب دی جاتی۔ کامیابی کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوسوں ، نشر و اشاعت کے مضبوط ذرائع، تشہیری مواد اور مدلل تحاریر و تقاریر کو لازم سمجھا جاتا۔

جب خدمت کے بجائے عہدوں اور اقتدار کا حصول ہی سیاست کا مقصد ٹھہرا  تو لٹریچر اور دلیل کی جگہ تشدد ، دھمکی اور اسلحہ کا استعمال ہونے لگا بیشتر جماعتوں نے عسکری ونگ قائم کرنے کو ہی کامیابی کا زینہ سمجھا اور شدت پسند گروہوں کو پشت پناہی و سرپرستی فراہم کرکے ملک بھر اور باالخصوص بڑے شہروں کا امن خاک میں ملا دیا۔

(جاری ہے)

انتہائی مختصر عرصے میں سوشل میڈیا نے ترقی پائی تو ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے کامیابی اور شہرت کے لیے سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دے دیں۔

ان سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے اب مخالفین کو خوب لتاڑا جاتا ہے۔ گفتگو میں دلائل کی جگہ گالم گلوچ کا استعمال عام ہے اور اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ جس میں ہر پارٹی کے کارکنان جو خود کو سوشل میڈیا کارکن کہتے ہیں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے نازیبا اور غیر اخلاقی الفاظ کے استعمال میں تقریباً ساری ہی جماعتیں پیش پیش ہیں۔

سوشل میڈیا ٹیموں کے ساتھ ساتھ جماعتوں کے اہم عہدوں پر براجمان نامی گرامی شخصیات بھی مخالفین کو کھری کھری سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کارکنان تو مخالفین پر ایسے جھپٹتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے پر ٹوٹ پڑیں۔ کچھ تو ایسے خدمت گار قسم کے کارکنان بھی ہوتے ہیں جو پارٹی منشور سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے قائدین کے معاملات سے آگاہی رکھتے ہیں لیکن مخالفین پر گالم گلوچ کی گولہ باری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔


گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا پر گالم گلوچ ، تنقید برائے تنقید اور بدتمیزی کا جو طوفان برپا ہے اس نے ہماری معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر دیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز میں سیاسی بحث و مباحثہ اور بیان بازی سے تنگ انسان جب سوشل میڈیا پر لاگ ان ہوتا ہے تو الزام و بہتان تراشی ، گالم گلوچ ، بے حیائی و فحاشی جیسی فضولیات دیکھ کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔


سوشل میڈیا پر ہم ایسے لوگوں کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو ہم جانتے تک نہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہم باہمی پیار و محبت کے رشتے اور تعلقات توڑ دیتے ہیں جن کے کردار و معاملات سے ہم واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں ان تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اور بات کرنے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔کتنے کارکنان اپنے قائدین سے مصافحہ کرنے اور ان کے ساتھ سلفی لینے کی خواہش میں دھکے اور تھپڑ تک کھا چکے ہیں۔

لیکن ان کی خاطر اپنے طبقے کے لوگوں کو گالم گلوچ کرکے خفا کرنے سے باز نہیں آتے۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ غیرت و اخلاقیات سے عاری اور نکمے پیروکاروں کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتا ہوگا کہ ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ان کے حقوق غصب کیے ہوئے ہیں اور یہ بیوقوف کس جانفشانی سے ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی دست و گریباں ہیں۔ کس طرح اپنے استحصال پر خوش اور مطمئن ہیں۔


تمام ہی جماعتوں کے ایسے کارکنان پر افسوس ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر اپنے قائدین کی غلطیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے دفاع میں مخالفین اور ناقدین سے بدتمیزی کرتے اور اپنے عزیز و اقارب سے ناراضگی مول لیتے ہیں۔ ان نادانوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ طبقہ اشرافیہ بہت متحد ہے ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ وہ آج اگر ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں تو کل کو ہم خیال ہوں گے۔

لیکن ان کی وجہ سے ہمارے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں ، نفرتیں اور دشمنیاں شاید تاحیات قائم رہیں۔
اگر سیاسی پارٹیاں ملک اور قوم کی مخلص ہیں اور تہذیب یافتہ و مہذب معاشرہ کے قیام کی خواہش مند ہیں تو سوشل میڈیا ونگز کے ممبران کی چھانٹی کریں۔ تمام جماعتوں کے قائدین سوشل میڈیا ونگ سے ایسے لوگوں کو نکالیں جو پارٹی کا نام استعمال کرکے سوشل میڈیا پر فحش کلامی اور گالم گلوچ میں ملوث ہیں۔

تنقید کرنا ہر شہری اور ہر سیاسی کارکن کا حق ہے لیکن اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مثبت تنقید کو فروغ دینے میں سیاسی شخصیات اور پارٹیز قائدین اپنا کردار ادا کریں۔ اگر سوشل میڈیا پر جاری طوفان بدتمیزی کو روکنے کے لیے اب بھی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو مستقبل میں خطرناک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :