14 اگست جشن کا نہیں ، تجدید عہد کا دن ہے

ہفتہ 14 اگست 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

ہمارا پیارا ملک پاکستان 14 اگست 1947 کو فرنگی سامراج سے آزاد ہوا اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر نظام حکمرانی رائج ہونے کی غرض سے ہندوئوں سے بھی علیحدگی اختیار کی گئی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ قائدین اس ملک میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا وضع کردہ نظام حکمرانی اور دستور نافذ کرنے کے خواہاں تھے۔

لیکن جس طرح نبی کریم کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار بے شمار سازشیں کرکے اپنے بہت سارے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے بالکل اسی طرح اقبال اور جناح کے پاکستان کو  بھی ڈی ریل کرنے میں ان ہی عناصر یا ان کے پیروکاروں کی چالیں کامیاب ہوئیں۔ ڈی ریل کے نتیجے میں 16 دسمبر 1971 کو ایک بوگی الگ ہو کر بہت دور جا گری۔

(جاری ہے)

  محمد علی جناح نے کتنی محنت کی اور اس محنت کا ثمر انھیں یہ ملا کہ علاج کے لیے ایمبولینس بھی ایسی دی گئی جو خود ان فٹ تھی۔


محمد علی جناح بھی حکمران رہے فاطمہ جناح بھی اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ ان کا خاندان آج کس حال میں ہے سب پاکستانی جانتے ہیں۔ طالع آزما اقتدار پر قابض ہوتے گئے اور ان کی کوکھ سے کٹھ پُتلی سیاست دان جنم لیتے رہے۔ قائد اعظم کی مسلم لیگ کے ساتھ بھی وفا نہ کی گئی ابن الوقت سیاست دانوں نے تقسیم در تقسیم کی روش اپنائی اور آج ہر جاگیردار اور کٹھ پُتلی سیاست دان کے خاندان کی ذاتی مسلم لیگ موجود ہے۔

سب قائد اعظم کے نام لیوا ہیں لیکن اپنے مفاد کی حد تک۔ افسوس ہے عوام پر کہ تب سے اب تک جلسوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے بازی ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔
عوام اتنی سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں کہ اس نظریہ کی طرف توجہ ہی نہیں جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بے بہا قربانیاں دی گئیں۔ اپنے بڑوں سے تقسیم کے وقت کا جو آنکھوں دیکھا حال سنا وہ اپنے بچوں کو بتلانا ضروری نہ سمجھا۔

اب نئی نسل 14 اگست کو جشن آزادی کے نام پر موٹر سائیکلوں کی الٹریشن کروا کر اپنے اسلاف کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اپنی زندگیوں کو پاکیزہ نظام کے تابع کرنے کی خواہش لیے پاکستان ہجرت کرنے والے عوام کے قافلوں پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔ خون کی ندیاں بہائیں گئیں۔ عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ علمائے حق و صوفیائے کرام کو قتل کیا گیا۔ اور آج کی نسل قائد اعظم کے مقبرہ پر ٹھمکے لگا کر اس سب پر جشن مناتی ہے۔


ایک بابا جی کہتے ہیں کہ 14 اگست کو لاہور کی مال روڈ پر عورتوں کے دوپٹے لٹکائے جائیں اور موٹر سائیکلوں پر باں باں کرنے والے نوجوانوں کو بتایا جائے یہ ان مائوں بہنو کی چادریں ہیں  پاکستان کو اپنانے کی پاداش میں جن کی عصمت دری کی گئی۔
جشن آزادی منانے کے لیے قومی پرچم خرید کر لہرا دیے جاتے ہیں جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں لیکن ان کی وقعت اور اہمیت سے آشنائی نہیں۔

15 اگست کو کچرے کے ڈھیر پر اور نالیوں میں وہ سبز ہلالی پرچم پڑے دکھائی دیتے ہیں جس کی سربلندی کے لیے دریائوں میں پانی کی جگہ خون مسلم بہتا رہا۔ ہم زندہ و تابندہ قوم ہیں لیکن ہمیں پرچم کا تقدس نہیں بتایا گیا۔ کبھی اس پرچم کو لہراتا دیکھ کر کئی کلومیٹر دور سے لٹے پٹے قافلوں میں آواز بلند ہوتی تھی " وہ دیکھو  پاکستان" اگر آج وہ روحیں نالیوں میں پڑے پرچم دیکھ سکیں تو کیا نعرہ بلند کریں گی؟ کیا وہ نالی یا ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے کہیں گی "وہ دیکھو پاکستان"؟ افسوس! ہم نے اس مقدس مملکت خداداد کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔


14 اگست بڑا دن ہے۔ زندہ قومیں قومی دن شان و شوکت سے مناتی ہیں۔ خوب جشن منائیں۔ لیکن اسلاف کی قربانیوں اور اکابرین کی محنتوں کو بھی ذہن نشین کیا جائے تاکہ انھیں بتانے کے قابل ہوں کہ قربانیوں کے عوض حاصل ہونے والے وطن کو ہم نے کیا دیا ہے؟ اس پرچم کی سربلندی کے لیے ہماری کیا تگ و دو رہی ہے۔
قارئین کرام اس بار یوم آزادی اسلامی سال کے پہلے مہینے میں آرہا ہے۔

جس کا آغاز ہی مراد رسول اور عدل و انصاف کے پیکر خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رض کی شہادت کے دل خراش واقعہ سے ہوتا ہے۔ اسی عشرہ کے آخر میں نواسہ رسول کو اہل و عیال سمیت شھید کیا گیا۔ چشم فلک نے کربلا جیسا ظلم پہلے یا بعد کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جس دل میں انسانیت کی قدر ہو اس دل کا حال واقعہ کربلا کو یاد کرکے آج بھی آنکھو سے چھلک جاتا ہے۔

اس سال جشن آزادی مناتے ہوئے ان واقعات کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ اگر ایک سال ہمارے نوجوانوں نے موٹر سائیکلوں کی باں باں اور بیٹیوں نے قائد کی قبر پر ٹھمکے لگانے کے بغیر آزادی کا جشن منا لیا تو امید ہے علامہ اقبال ، محمد علی جناح اور دیگر قائدین برا نہیں مانیں گے۔
جشن منانے سے پہلے یہ بھی سوچیں کہ کیا ہم آزاد بھی ہیں یا ویسے باں باں کر رہے ہیں۔

آزاد ہیں تو پھر کئی دہائیوں سے باریاں بدل بدل کر آنے والے عناصر کا محاسبہ کیوں نہیں کر سکے۔ اقبال اور قائد کے مجوزہ نظام کے نفاذ کے لیے اہل قیادت کیوں نہیں منتخب کر سکتے؟ ابھی ہم صرف باں باں ہی کر سکتے ہیں ۔ آزادی کا جشن منانے کے قابل تب ہوں گے جب قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن کو پروموٹ کرتے ہوئے استحصالی نظام کی رکاوٹ بن سکیں گے اور اس عہد کی تجدید کریں کہ قیام پاکستان کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے بڑوں کے مقدس خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ جس نظام کے لیے انھوں نے قربانیاں دیں اس دیس میں وہ نظام لاکر رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :