
افغانستان پر طالبان کا قبضہ اور مغربی میڈیا کی رپورٹنگ
بدھ 1 ستمبر 2021

طارق زمان
جیسے ہی اتحادیوں نے انخلاء کا آغاز کیا طالبان نے بھی تیزی سے اور بغیر کسی مزاحمت کے پیش قدمی شروع کردی۔
(جاری ہے)
دوحہ میں افغان تنازعے کے حل کے لیے جاری امن مذاکرات ہوں ، اتحادی افواج کا انخلاء ہو یا طالبان کی جانب سے اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے کے مناظر ہوں عالمی میڈیا نے پل پل کی بدلتی صورتحال پر رپورٹنگ کی اور نہ صرف حالات حاضرہ سے دنیا کو آگاہ کیا بلکہ افغان روایات ، تاریخ اور افغان تنازعہ کے پس منظر سے متعلق بھی رپورٹس، مشاہدات، جائزے، تجزیے اور تحاریر میڈیا پر نشر اور شائع کرکے دنیا کو آگاہ کیا۔
جہاں مشرق و مغرب کے ممالک افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام، خدو خال ، امن کے قیام ، انسانی حقوق کی صورتحال اور اسلامی قوانین کے نفاذ سمیت دیگر بے شمار معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں خطے کے دیگر ممالک پر مرتب ہونے والے اثرات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جن کے تناظر میں افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے یا پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں وہاں مختلف ممالک کا میڈیا باالخصوص مغربی اور انڈین میڈیا چینلز بے وقت کی راگنی آلاپ رہے ہیں۔ انڈین میڈیا کی تو چلیں بات ہی نہ کریں اسے تو کسی صورت آزاد کہا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ صرف ایک مذہب ایک حکومت اور ایک قوم کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ مغربی میڈیا کو بیشتر لوگ غیر جانبدار اور آزاد تصور کرتے تھے۔ پاکستان میں میڈیا چینلز اور اخبارات کی بہتات سے قبل ہمارے لوگ بھی ریڈیو سیٹ پر برطانیہ کے چینل کی اردو سروس کو ٹیون کرکے خبریں سنتے اور ان پر مکمل یقین کر لیتے کہ ان کی کوئی خبر بھی بے بنیاد نہیں ہوتی۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ہمارے بزرگ سادہ لوح تھے یا چند دہائیاں پہلے تک میڈیا تعصب سے پاک تھا۔
15 اگست کے بعد سے آج تک جو رپورٹنگ مغربی میڈیا پر دیکھنے کو ملی ہے اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں حل طلب مسائل جن پر میڈیا کی سٹوریز بن سکتی تھیں وہ سب ختم ہو گئے ہیں اور اپنے ملک پر قابض ہونے والوں کی ہی کہانی زبان زد عام ہے جس سے پوری دنیا کے مفادات وابستہ ہیں۔ 15 اگست کے بعد اس بات کا اندازہ بھی ہوا کہ مغربی میڈیا کس قدر جانبدار اور متعصب ہے۔ طالبان نے ابھی حکومت نہیں سنبھالی، ملک کا نظام چلانے کا آغاز بھی نہیں کیا، اسلامی قوانین پر عملدرآمد اور سزا و جزا کے سلسلے کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا، ان کی وجہ سے کوئی قتل و غارت گری کا بڑا واقعہ بھی رونما نہیں ہوا، انسانی حقوق کا استحصال بھی سامنے نہیں آیا، طالبان کی جانب سے بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا اور نہ ہی خواتین کو ملازمتوں پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مغربی میڈیا چینلز کی اردو ویب سائٹس پر ہر چار گھنٹے کے وقفے سے مفروضوں اور فرضی کہانیوں کو بنیاد بنا کر انسانی و خواتین کے حقوق کے استحصال کا خدشہ ظاہر کرکے رونا دھونا اور طالبان کی مجوزہ حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔
طالبان قیادت نے بارہا پریس کانفرنس بھی کی جس میں انہوں نے یہی کہا کہ میڈیا زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کرے اور انارکی پھیلانے سے باز رہے۔ لیکن میڈیا نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی حقوق ، خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کو سخت خطرات لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ طالبان فلاں کی جاسوسی کر رہے ہیں لوگ وہاں سے خوف کے عالم میں دوسرے ممالک فرار ہونا چاہتے ہیں غیر یقینی کی صورتحال ہے طالبان قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیں گے۔ میڈیا پر یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے اور پڑھ پڑھ کر آنکھیں سفید ہوگئیں لیکن حقیقت میں ابھی کچھ ایسا ہوا نہیں ہے جس سے مغربی میڈیا کا تعصب ہی ظاہر ہو رہا ہے۔
متعصب مغربی میڈیا کو طالبان کے اپنی سر زمین پر قبضے کی صورت میں حقوقِ انسانی و نسواں تو خطرے میں نظر آتے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی زمین پر قبضے اور خون خرابے سے ہزاروں بچوں ، خواتین اور شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات نظر نہیں آتے۔ افغانستان میں نہتے لوگوں پر امریکہ اور اتحادیوں نے 20 سال آگ برسائی جس کے نتیجے میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، گوانتاناموبے کی بدنام جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا تب مغربی میڈیا کو انسانی حقوق یاد نہیں تھے۔ امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے غیر انسانی رویہ اور تشدد کے واقعات سامنے آنے پر بھی مغربی میڈیا کو حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بھارت میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جن پر انسانی حقوق کا علمبردار مغربی میڈیا گنگ ہے۔ شام، عراق، لیبیا اور برما کے خون خرابے پر ہر چار گھنٹے بعد سٹوریز کیوں آن ائیر و شائع نہیں کی گئیں۔؟
افغانستان میں طالبان کی فتح سے دنیا پر ان لوگوں کی حالتِ زار بھی ظاہر ہوئی جنھوں نے عارضی مفاد کی خاطر قابض افواج کے لیے خدمات سر انجام دیں اپنے ہی لوگوں کے گلے کٹوا کر اغیار سے داد تحسین وصول کی اور افغان قوم کے میر جعفر و صادق کا عبرتناک انجام بھی دنیا نے دیکھا جن کا تکبر پل بھر میں خاک ہوا۔
وہاں افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی نے مغربی میڈیا کی حقیقت بھی اہل مشرق باالخصوص پاکستان ، افغانستان اور ایران کے عوام پر عیاں کر دی ہے۔ مشرقی عوام کو مغربی میڈیا کے دہرے معیار ، تعصب اور تنگ نظری کو پہچان جانا چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
طارق زمان کے کالمز
-
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اچھے دنوں کی امید
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
گالم گلوچ ونگ
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
افغانستان پر طالبان کا قبضہ اور مغربی میڈیا کی رپورٹنگ
بدھ 1 ستمبر 2021
-
ہمارے ہیں حسینؓ
ہفتہ 21 اگست 2021
-
14 اگست جشن کا نہیں ، تجدید عہد کا دن ہے
ہفتہ 14 اگست 2021
-
سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے
جمعرات 5 اگست 2021
-
کیا یہ مسلم معاشرہ ہے؟
بدھ 28 جولائی 2021
-
یکے بعد دیگرے متشدد واقعات، باعث تشویش صورتحال
پیر 19 جولائی 2021
طارق زمان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.