افغانستان پر طالبان کا قبضہ اور مغربی میڈیا کی رپورٹنگ

بدھ 1 ستمبر 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

طالبان نے گزشتہ تقریباً 20 سالوں سے سر زمین افغانستان پر قابض جدید ٹیکنالوجی اور سامان حرب سے لیس امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ اپنی روایات اور تاریخ کو دھراتے ہوئے افغانوں نے اپنے دیس سے تیسری عالمی طاقت کو بھی بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ 20 سالوں میں اتحادی ممالک کی افواج نے جہاں خون کی ندیاں بہائیں وہاں خود بھی بڑے جانی نقصان سے دوچار ہوئیں۔

انسانیت کو پامالی سے بچانے کے لیے مذاکرات اور سیاسی تصفیے جیسا جو عمل ابتداء میں ضروری تھا وہ دو دہائیوں کی جنگ و جدل کے بعد کیا گیا۔ بہر حال عالمی سپر پاور امریکہ نے اپنی ہی بنائی ہوئی دلدل سے اپنی اور اتحادیوں کی جان خلاصی کروا لی۔
جیسے ہی اتحادیوں نے انخلاء کا آغاز کیا طالبان نے بھی تیزی سے اور بغیر کسی مزاحمت کے پیش قدمی شروع کردی۔

(جاری ہے)

آغاز میں چند اضلاع پر قابض ہوئے پھر صوبوں پر قبضے کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے 15 اگست کو محض چند ہفتوں کے اندر افغان طالبان ملک کے دارالحکومت کابل کے داخلی راستوں پر آن بیٹھے اور ایک ہی دن کے اندر کابل میں داخل ہوکر صدارتی محل سمیت اہم عمارات اور تنصیبات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس دوران بیس سالوں سے امریکی حمایت سے ملک کا نظام چلانے والی انتظامیہ اور حکومت انتہائی پر امن انداز میں تتر بتر ہوگئیں جس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور بعض طاقتیں غصے ، دکھ اور تشویش میں مبتلاء ہوئیں۔

لیکن کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے طالبان نے ملک میں امن قائم کرنے کی خاطر تمام طبقات سے مل کر مخلوط حکومت کے قیام کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تمام مخالفین حتیٰ کہ سیکیورٹی فورسز اور سرکاری ملازمین کو تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔
دوحہ میں افغان تنازعے کے حل کے لیے جاری امن مذاکرات ہوں ، اتحادی افواج کا انخلاء ہو یا طالبان کی جانب سے اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے کے مناظر ہوں عالمی میڈیا نے پل پل کی بدلتی صورتحال پر رپورٹنگ کی اور نہ صرف حالات حاضرہ سے دنیا کو آگاہ کیا بلکہ افغان روایات ، تاریخ اور افغان تنازعہ کے پس منظر سے متعلق بھی رپورٹس، مشاہدات، جائزے، تجزیے اور تحاریر میڈیا پر نشر اور شائع کرکے دنیا کو آگاہ کیا۔


جہاں مشرق و مغرب کے ممالک افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام، خدو خال ، امن کے قیام ، انسانی حقوق کی صورتحال اور اسلامی قوانین کے نفاذ سمیت دیگر بے شمار معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں خطے کے دیگر ممالک پر مرتب ہونے والے اثرات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جن کے تناظر میں افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے یا پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں وہاں مختلف ممالک کا میڈیا باالخصوص مغربی اور انڈین میڈیا چینلز بے وقت کی راگنی آلاپ رہے ہیں۔

انڈین میڈیا کی تو چلیں بات ہی نہ کریں اسے تو کسی صورت آزاد کہا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ صرف ایک مذہب ایک حکومت اور ایک قوم کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ مغربی میڈیا کو بیشتر لوگ غیر جانبدار اور آزاد تصور کرتے تھے۔ پاکستان میں میڈیا چینلز اور اخبارات کی بہتات سے قبل ہمارے لوگ بھی ریڈیو سیٹ پر برطانیہ کے چینل کی اردو سروس کو ٹیون کرکے خبریں سنتے اور ان پر مکمل یقین کر لیتے کہ ان کی کوئی خبر بھی بے بنیاد نہیں ہوتی۔

اب یہ نہیں معلوم کہ ہمارے بزرگ سادہ لوح تھے یا چند دہائیاں پہلے تک میڈیا تعصب سے پاک تھا۔
15 اگست کے بعد سے آج تک جو رپورٹنگ مغربی میڈیا پر دیکھنے کو ملی ہے اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں حل طلب مسائل جن پر میڈیا کی سٹوریز بن سکتی تھیں وہ سب ختم ہو گئے ہیں اور اپنے ملک پر قابض ہونے والوں کی ہی کہانی زبان زد عام ہے جس سے پوری دنیا کے مفادات وابستہ ہیں۔

15 اگست کے بعد اس بات کا اندازہ بھی ہوا کہ مغربی میڈیا کس قدر جانبدار اور متعصب ہے۔ طالبان نے ابھی حکومت نہیں سنبھالی، ملک کا نظام چلانے کا آغاز بھی نہیں کیا، اسلامی قوانین پر عملدرآمد اور سزا و جزا کے سلسلے کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا، ان کی وجہ سے کوئی قتل و غارت گری کا بڑا واقعہ بھی رونما نہیں ہوا، انسانی حقوق کا استحصال بھی سامنے نہیں آیا، طالبان کی جانب سے بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا اور نہ ہی خواتین کو ملازمتوں پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود مغربی میڈیا چینلز کی اردو ویب سائٹس پر ہر چار گھنٹے کے وقفے سے مفروضوں اور فرضی کہانیوں کو بنیاد بنا کر انسانی و خواتین کے حقوق کے استحصال کا خدشہ ظاہر کرکے رونا دھونا اور طالبان کی مجوزہ حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔
طالبان قیادت نے بارہا پریس کانفرنس بھی کی جس میں انہوں نے یہی کہا کہ میڈیا زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کرے اور انارکی پھیلانے سے باز رہے۔

لیکن میڈیا نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی حقوق ، خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کو سخت خطرات لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ طالبان فلاں کی جاسوسی کر رہے ہیں لوگ وہاں سے خوف کے عالم میں دوسرے ممالک فرار ہونا چاہتے ہیں غیر یقینی کی صورتحال ہے طالبان قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیں گے۔ میڈیا پر یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے اور پڑھ پڑھ کر آنکھیں سفید ہوگئیں لیکن حقیقت میں ابھی کچھ ایسا ہوا نہیں ہے جس سے مغربی میڈیا کا تعصب ہی ظاہر ہو رہا ہے۔


متعصب مغربی میڈیا کو طالبان کے اپنی سر زمین پر قبضے کی صورت میں حقوقِ انسانی و نسواں تو خطرے میں نظر آتے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی زمین پر قبضے اور خون خرابے سے ہزاروں بچوں ، خواتین اور شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات نظر نہیں آتے۔ افغانستان میں نہتے لوگوں پر امریکہ اور اتحادیوں نے 20 سال آگ برسائی جس کے نتیجے میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، گوانتاناموبے کی بدنام جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا تب مغربی میڈیا کو انسانی حقوق یاد نہیں تھے۔

امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے غیر انسانی رویہ اور تشدد کے واقعات سامنے آنے پر بھی مغربی میڈیا کو حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بھارت میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جن پر انسانی حقوق کا علمبردار مغربی میڈیا گنگ ہے۔

شام، عراق، لیبیا اور برما کے خون خرابے پر ہر چار گھنٹے بعد سٹوریز کیوں آن ائیر و شائع نہیں کی گئیں۔؟
افغانستان میں طالبان کی فتح سے دنیا پر ان لوگوں کی حالتِ زار بھی ظاہر ہوئی جنھوں نے عارضی مفاد کی خاطر قابض افواج کے لیے خدمات سر انجام دیں اپنے ہی لوگوں کے گلے کٹوا کر اغیار سے داد تحسین وصول کی اور افغان قوم کے میر جعفر و صادق کا عبرتناک انجام بھی دنیا نے دیکھا جن کا تکبر پل بھر میں خاک ہوا۔
 وہاں افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی نے مغربی میڈیا کی حقیقت بھی اہل مشرق باالخصوص پاکستان ، افغانستان اور ایران کے عوام پر عیاں کر دی ہے۔ مشرقی عوام کو مغربی میڈیا کے دہرے معیار ، تعصب اور تنگ نظری کو پہچان جانا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :