کیا یہ مسلم معاشرہ ہے؟

بدھ 28 جولائی 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

اللّٰہ کے فضل سے ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔ الحمدللہ نمازیوں سے مساجد کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ عاشورہ محرم الحرام کے جلوس و مجالس ہوں یا ربیع الاوّل کی تقریبات ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جمعہ اور عیدین سمیت دیگر مذہبی تہواروں پر بڑے بڑے اجتماعات اسلام سے ہماری والہانہ محبت کا ثبوت ہیں۔

اولیائے کرام کے مزارات پر عرس تقریبات کا اہتمام اور کثیر تعداد میں شرکت اللّٰہ کے نیک بندوں سے ہماری عقیدت و احترام کا ایسا اظہار ہے جس کی مثال دیگر مسلم ممالک میں نہیں ملتی۔ کبھی کوئی غیر مسلم للکار کر تو دیکھے بچہ بچہ اللّٰہ کے دین پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے کے لیے انفرادی عبادات ، وضائف ، اذکار ، چلے ، مجاہدے اور سہ روزوں کا اہتمام ہمارا طرہ امتیاز ہے۔


لیکن ہمارے معاشرے میں قتل و خون خرابے کا دور دورہ ہے۔ اموال محفوظ ہیں نہ کسی کی جان کو تحفظ حاصل ہے۔ عصمت دری ، بے راہ روی، فحاشی و عریانی عروج پر ہے۔ زیادتی ، حق تلفی اور ناانصافی ہماری شناخت بن چکی ہیں۔ مسجد میں جائیں تو چوری کے ڈر سے پھٹے پرانے جوتوں کے بھی تلوے جوڑ کر دوسروں کی نظروں سے اوجھل کسی محفوظ مقام پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سفر کے دوران ایک سیٹ کا کرایہ دے کر ایسے تشریف فرما ہوتے ہیں کہ پوری گاڑی پر حق ملکیت ظاہر ہوتا ہے۔ متصل سیٹ والے مسافر کو ایک دو بار درخواست کرکے اپنی سیٹ واگزار کروانی پڑتی ہے۔ کسی جگہ لائن میں کھڑے ہوکر باری کا انتظار کرنا پڑے تو کم از کم دو چار بار باہمی دست و گریباں ہونے کی نوبت آتی ہے۔ خریداری کے دوران پورے دام ادا کرکے بھی اشیاء کا معیار و مقدار تسلی بخش ہونے کا شبہ ہی رہتا ہے۔

ایک کلو آم خریدتے وقت ریڑھی بان اور گاہک کے درمیان چھینا جھپٹی اور "یہ خراب" ، "کہاں سے خراب" ، " ایک دانہ بھی خراب ہوا گھر سے واپس لائوں گا" ایسے کلمات پر مشتمل مباحثہ کا منظر بھی شاید کسی دوسرے ملک میں دیکھنے کو کم ہی ملتا ہوگا۔ ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ پہلے دودھ میں پانی ملایا جاتا تھا آج کل مہنگائی کے تناسب سے پانی میں دودھ ملا کر فروخت کیا جاتا ہے۔


ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمد ہو یا عیدین ایسے مذہبی تہوار ہوں ذخیرہ اندوزی و گراں فروشی بالکل بھی ناجائز نہیں سمجھی جاتی۔ یہاں تک کہ مقامی پیداوار سبزیاں وغیرہ بھی قبل از وقت ہی ذخیرہ کر لی جاتی ہیں۔ اپنے ناموں کے ساتھ الحاج ، مدنی اور مکی جیسے القابات لگانے والی کاروباری شخصیات اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو ترسانے اور خوار کرنے کے بعد منہ مانگی قیمت کے عوض اشیاء فروخت کرتے ہیں۔


کون سی ایسی خامی اور برائی باقی رہ جاتی ہے جو ہمارے مسلم معاشرے میں نہ پائی جاتی ہو۔ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسو اور دعائیں آڑے آجاتی ہیں ورنہ وہ تمام افعال ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کی وجہ سے پہلی مختلف اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہوچکے ہیں۔
ہم کلمہ گو ضرور ہیں لیکن افعال و کردار کو دیکھا جائے تو ہم مسلمان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔

اللّٰہ کے آخری نبی نے ایسا نظام معاشرت نہیں دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق تو مسلمان یا مومن کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے تھے۔ جو مسلم معاشرہ کی پہچان تھے اور مومن کو دوسرے انسانوں سے مہذب اور باادب بناتے ہیں۔ مسلم معاشرہ میں انسانوں کے اموال اور جانیں محفوظ ہونی چاہییں، نیکی کا حکم و ترویج اور برائی سے ممانعت ہونی چاہیے۔


ملاوٹ، ناپ تول میں کمی ، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، دھوکہ ، جھوٹ ، فراڈ، جعل سازی، چوری، لوٹ مار، بے حیائ، عصمت دری، حق تلفی اور ناانصافی جیسی برائیاں جس معاشرے میں سرایت کر جائیں اسے مسلم معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ جس طرح عبادات اور تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ایسے ہی معمولات زندگی اور معاملات معاشرت کا درست ہونا بھی اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہیں۔


ہم ہر بات میں حکمرانوں اور حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ لیکن انفرادی طور پر اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس اسلامی ملک و معاشرہ کی ترقی کے لیے ہمارا کردار کیا رہا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ متذکرہ بالا برائیاں اور خامیاں جنھیں آج کل کسی خاطر میں نہیں لایا جا رہا کہیں کل کو بارگاہِ الٰہی میں ہماری رسوائی کا سبب نہ بن جائیں۔ دوسروں کو غلط کہنے سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی برائیاں اور خامیاں جن کو ہم نظر انداز کر رہے ہیں یہی معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ حکومتوں اور انتظامیہ سے اصلاح کی امید رکھنے کے بجائے ہمیں اپنی اصلاح کرکے ان سے بچنا ہوگا تاکہ ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :