بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اچھے دنوں کی امید

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں عمران خان احتجاجی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے مہنگائی کے خلاف واشگاف الفاظ استعمال کرکے عوام کی ترجمانی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے پر عمران خان نے احتجاجی دھرنے کے دوران بل جلا کر سول نافرمانی تحریک کا آغاز کیا اور عوام سے بھی بل ادا نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھیں حکمران چور ہیں۔

عوام پر ٹیکس لگنے سے قوت خرید کم ہوتی ہے غربت بڑھتی اور قوم غریب ہوتی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے غریب نیچے اور امیر دن بدن اوپر جاتا ہے۔
جب خان صاحب سڑکوں پر تھے اکثریتی عوام نے ملکی صورتحال کے پیش نظر ان کی باتوں کو سچ سمجھا اور اتفاق کرتے ہوئے حکمرانوں کو غلط جانا کیوں کہ حالات کی خرابی کے زمہ دار حکمران ہی تھے۔

(جاری ہے)

قومی خزانہ لوٹ کر اندرون و بیرون ممالک اثاثے بنانے اور قوم کو مقروض کرنے پر عوام نے 2018 کے انتخابات میں بڑی جماعتوں اور طویل مدت تک حکمرانی کرنے والے سیاستدانوں سے خوب انتقام لیا۔


عوام نے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو نجات دہندہ سمجھا اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کی امیدیں وابستہ کر لیں۔ خان صاحب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو 90 ایام میں تبدیلی لاکر دکھانے کا وعدہ کیا۔ بھینسوں، کٹوں اور گاڑیوں کو قومی خزانے پر بوجھ قرار دیتے ہوئے فروخت کیا سادگی اپناتے ہوئے اضافی اخراجات پر پابندی عائد کرکے عوام کے لیے امید کی کرن بن گئے۔


لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے مسائل سر اٹھانے لگے ۔ عوام میں بے چینی پھیلنے لگی تو کہا گیا کہ مختلف مافیاز تبدیلی سے خوف زدہ ہوکر مسائل پیدا کر رہے ہیں عوام نے فی الحال گھبرانا نہیں اچھے اور پر سکون دن آنے والے ہیں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سکون تو صرف قبر میں ہے۔  بہر حال عوام نے قبر میں سکون والی بات کو مذاق جانا اور مافیاز کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے کئی اشیاء کے استعمال کا بائیکاٹ کرکے حالات کنٹرول کرنے کی کوشش میں حکومت کا ساتھ دیا۔

عوام پر امید تھے کہ ذخیرہ اندوزوں ، گراں فروشوں اور اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو ناکام بنا کر قبر میں جانے سے پہلے پر سکون اور اچھے دن دیکھے جا سکتے ہیں۔
اب موجودہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا اور تھوڑا رہ گیا ہے۔ جو وعدے خان صاحب نے گزشتہ بائیس سالوں میں قوم سے کیے تھے ان کو عوام بھول چکے۔ لیکن ڈی چوک پر 126 دن کے دھرنے میں جو وعدے کیے ان میں سے چند بھی پورے نہیں ہوئے۔

اب بھی موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور جو خان صاحب کا ویژن متعارف کروانے میں پیش پیش ہوتے اب چائے میں 9 دانے چینی کم ڈالنے اور روٹی کے 9 نوالے کم کھا کر عوام کو مہنگائی کنٹرول کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جنھوں نے خود کشی کر لینی تھی لیکن آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا تھا وہ آج قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ہر طرح کے مطالبات ماننے کو تیار بیٹھے ہیں۔

مارکیٹ میں آٹے کا 20 کلو تھیلا پندرہ سو میں فروخت ہو رہا ہے دالیں، چینی ، گھی اور دیگر اشیائے خوردونوش چوروں کی حکومتوں کی نسبت صادق و امین کے نئے پاکستان میں تین یا چار گنا مہنگی ہو چکی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھی ہے دیگر ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں زیادہ ہوئی ہیں۔ لیکن دیگر ممالک میں فی کس آمدنی کا مقابلہ ہماری آمدنی سے کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ مہنگائی نے ہمیں کتنا متاثر کیا ہے۔

ہمارے ملک میں غریب اور متوسط طبقات مہنگائی کی وجہ سے پس چکے ہیں۔اگر مہنگائی اور حالات کی خرابی کی وجہ مافیاز ہیں تو ان کے خلاف حکومت نے تین سالوں میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ یا پھر خان صاحب کی ٹیم میں اور امپورٹ شدہ مشیروں میں بھی مافیاز کے کارندے موجود ہیں؟ بد انتظامی کے باعث تین سالوں میں ہر شعبے میں غیر یقینی کی صورتحال نے عوام کو مایوس کر دیا ہے۔


تبدیلی کی امید رکھنے والے غربت اور مہنگائی کے ستائے عوام موجودہ حکومت اور باالخصوص وزیر اعظم عمران خان سے پوچھتے ہیں کیا اب ہم بجلی اور گیس کے بل جلا دیں؟ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ پر حکمران کو چور سمجھ لیں؟ کیا اب ہم گھبرا لیں؟ اگر نہیں تو عوام کو بتایا جائے کہ سابقہ حکومتوں کی کوتاہیوں کا خمیازہ مزید کتنا عرصہ بھگتنا ہوگا؟ موجودہ حکومت کو حالات ٹھیک کرنے کے لیے مزید کتنا عرصہ درکار ہے؟ اچھے دن کب آئیں گے مزید دو سالوں کے بعد؟  یا سابقہ حکومتوں کے پیدا کردہ مسائل حل کرنے کے لیے اگلا پانچ سالہ بھی خان صاحب کو چاہیے ہوگا؟ اور اگر مزید کئی سال بھی خان صاحب کی حکومت کو دے کر حالات جوں کے توں رہے تو کیا پھر بھی حالات کے زمہ دار سابق حکمران ہی ہوں گے؟ اگر خان صاحب کی حکومت تین سال سے زائد عرصہ میں سابقہ حکومتوں کے چھوڑے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے تو کیا اس وقت ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہے؟ اور یا پھر ہم عوام کو سکون کی تلاش میں قبرستانوں کا ہی رخ کرنا ہوگا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :