نئے پاکستان میں قانون سازی، اسلامی تعلیمات اور ہمارا خاندانی نظام

منگل 6 جولائی 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کے لیے بل پیش کیا جسے اکثریت سے منظور کرلیا گیا ہے۔
بل کی  منظوری کے لیے حزب اقتدار کو پی پی پی اور مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی بھی حمایت حاصل تھی۔ مذہبی جماعتوں کے چند ممبران نے بل کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن اکثریت نے ان کے موقف پر غور نہ کرتے ہوئے بل کی منظوری دے دی۔

تاہم ایوان بالا نے چند ضروری ترامیم کے ساتھ بل منظوری کے لیے واپس ایوان زیریں کو ارسال کیا ہے۔
بل کے مطابق والدین کی سختی کرنے کو اگر بچے اپنی تزلیل یا توہین ، والدین کے عمل یا رویے کو اپنی آزادی، رازداری اور تحفظ کے لیے خطرہ سمجھیں تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

خاوند اگر بیوی کو طلاق دینے یا دوسری شادی کا ارادہ ظاہر کرے تو بیوی اپنے خاوند کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کر سکے گی۔

بل کے مطابق مندرجہ بالا جرائم سرزد ہونے کی صورت میں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ گھر سے بے دخل بھی کیا جاسکتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر مجرم کے بازو پر جی پی ایس ٹریکنگ کے لیے ایک ڈیجیٹل رنگ پہنا دیا جائے گا جس سے اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے گی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں آئے روز گھریلو سطح پر تشدد ، استحصال اور حراساں کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل، جائیداد اور وراثت کے تنازعات پر تشدد بھی عام ہے۔ جن کے خاتمے کے لیے قوانین پر عملدرآمد اور سزا و جزا کے نظام کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت تھی۔
لیکن حالیہ دنوں پاس ہونے والے گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کے بل میں شامل چند نکات پر مختلف مکاتب فکر کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مذہبی حلقوں سمیت بعض طبقات اس بل کی چند شقوں کو اسلامی تعلیمات اور مشرقی اقدار، معاشرتی و خاندانی نظام سے متصادم قرار دے رہے ہیں ۔

بل میں شامل بچوں اور والدین سے متعلق چند متنازعہ نکات کو فوری طور پر ختم کرنے اور ضروری ترامیم کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں والدین کی جانب سے اولاد پر تشدد یا ان کے حقوق غصب کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن بہترین تعلیم و تربیت ، نشوونما اور مثالی پرورش کی خاطر والدین اپنی اولاد پر ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے جائز حد تک سختی اور پابندی رکھ سکتے ہیں۔

ناسمجھی کی عمر میں اولاد کی مناسب رہنمائی کے لیے مختلف طریقوں اور منصوبہ بندی کے تحت ان کے معاملات اور معمولات کی نگرانی کرنا اور جہاں ضرورت پیش آئے مناسب انداز میں درگزر کے ساتھ کوتاہیوں کو دور کرنا بھی والدین ہی کی اولین زمہ داری ہے۔
خاندانی و ازدواجی تعلقات و نظام کے متعلق قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں انسانوں کے لیے واضح احکامات اور رہنمائی موجود ہے۔

مسلم معاشرے کے لیے اسلامی تعلیمات ہی مسلمہ قوانین ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق ملک میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا یا نافذ کیا جائے گا جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو۔
وزیر اعظم عمران خان تو ریاست مدینہ جیسی اسلامی و فلاحی ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں جس کا وہ اپنی تقاریر میں برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن بل میں شامل کیے گئے چند نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے پاکستان میں ریاست مدینہ سے زیادہ مغرب والا نظام لانے کو اولیت دی جارہی ہے۔

جس سے معاشرتی اور خاندانی اقدار و نظام پر برے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔  مادر پدر آزاد نسل پروان چڑھا کر یورپ کی طرح بے راہ روی اور عریانی والا نظام لانے کی راہ ہموار ہونے کا اندیشہ ہے جس میں والدین و بچوں اور خاوند و بیوی کا ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر اسلامی و فلاحی نظام کے نفاذ کی خاطر قائم کیا گیا تھا۔

جس کا آئین اسلامی تعلیمات کے نچوڑ پر مبنی ہونا چاہیے۔ لاکھوں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرکے حاصل کیے گئے اس مقدس خطہ ارض پر ایسے نظام و قوانین کی گنجائش موجود نہیں ہے جو آئین فطرت کے منافی ہوں۔ اس لیے حزب اقتدار و اختلاف پر لازم ہے کہ معاملہ کی حساسیت اور سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عجلت کے فیصلوں سے اجتناب کریں۔ گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق اس اہم بل کے نکات پر اسلامی نظریاتی کونسل، تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ملک کے جید علمائے کرام و مفتیان سے تجاویز طلب کرکے باہمی اتفاق و مشاورت سے اسلامی تعلیمات کے مطابق بل کی منظوری ممکن بنائیں تاکہ نئے پاکستان میں ریاست مدینہ والے قوانین اور خاندانی نظام نافذ ہوکر صحیح معنوں میں ریاست مدینہ کی مثال قائم ہوسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :