قومی زبان اردو کی ترویج

جمعہ 9 جولائی 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کے قیام کی جدوجھد میں اردو جسے برصغیر کے مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا تھا ایک بنیادی محرک تھی۔ مجوزہ اسلامی ریاست میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد اردو کو ہی قومی و سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے پر تمام قائدین و اکابرین کا اتفاق تھا۔ لیکن آزادی کے بعد بھی ہم نے غلام قوم والی عادات کو تبدیل کرنے پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔

جہاں ہم نے حصول آزادی کے دیگر بہت سارے مقاصد پس پشت ڈال دیے وہاں اردو زبان کے نفاذ میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا۔
آزادی کے بعد اردو زبان کی ترویج و ترقی میں اہل علم و ادب نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں لیکن ہر دور کے حکمرانوں اور ارباب اختیار نے اردو زبان کے ساتھ بے وفائی کرکے طبقاتی نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

(جاری ہے)

اردو کو عوام کی زبان گردانتے ہوئے اس پر بھی عوام کے معیار زندگی جیسی ہی توجہ دی گئی۔ خواص کے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے انگریزی کا سہارا لیا گیا اور عوام کے لیے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا کیوں کہ اردو عوام کی زبان جو ٹھہری۔
قومی زبان سے محبت کرنے والے پاکستانیوں نے اردو زبان کے نفاذ اور اسے اعلیٰ سطح تک ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے مختلف ادوار میں تحریکیں بھی چلائیں لیکن انگریزوں کی غلامی کو ترقی کا زینہ سمجھنے والے ارباب اختیار نے محض لفاظی کے ذریعے ہی اردو سے محبت کا اظہار کرکے عوام کو مطمئن رکھا۔

انگریزی سیکھنے اور بولنے کے جنون میں مبتلا نئی نسل کا یہ حال ہے کہ انگریزی تو آئی نہیں الٹا اردو کو بھی بھول گئے۔ اب آدھی اردو انگریزی میں اور آدھے سے زیادہ انگریزی کو اردو میں ملا کر ادھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ہے۔ بلکہ کسی ٹی وی چینل پر ٹاک شو دیکھا جائے تو مختلف زبانوں کی آمیزش سے گفتگو بھی مکس اچار سے کم معلوم نہیں ہوگی۔ دفاتر اور تقریبات میں عوام بھی خود کو ماڈرن ظاہر کرنے کے لیے منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ بولنے لگے تو ہر بات انگریزی میں ہی کرے تاکہ عزیر رشتہ داروں پر رعب قائم ہوسکے۔ سب سے بڑھ کر موجودہ دور میں نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے کے لیے بچوں کو انگریزی سکھانا والدین کی مجبوری بن چکی ہے۔کیوں کہ گزشتہ چند برسوں سے نجی کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کو بھی انگلش میڈیم کا درجہ دیا جا چکا ہے۔

ایسے تعلیمی نظام کی وجہ سے راقم کا اپنا یہ حال ہے کہ دفتر میں کوئی شخص انگریزی کے کسی لفظ کے متعلق پوچھ لے تو مجبوراً یہ ہی کہنا پڑھتا ہے کہ اردو میڈیم سے فارغ التحصیل ہوں اور اردو لفظ کے استعمال کی بات ہو تو یہی کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے آج کل اردو میں ایک آدھ انگریزی کا لفظ یا جملہ بھی چلتا ہے۔ یعنی ''کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا''۔


بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہمیں انگریزی نہ آئے تو ہم اسے اپنی بے عزتی ، کم علمی اور جہالت سمجھتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں سوچا کہ بیشتر انگریز اردو بھی تو نہیں بول سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے غلام تھے اور اب ذہنی غلام ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی اپنی قومی زبانوں کو ہی ذریعہ تعلیم بنائے رکھا لیکن ہم پاکستانیوں کے ذہن میں ڈال دیا گیا ہے کہ انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔


ہمارے ہاں عدالتی سماعت کے دوران اکثر وکیل اور جج کے مابین بحث بھی انگریزی میں ہوتی ہے موکل جسے جاننے سے ناآشنا ہی رہتا ہے اور فیصلہ بھی انگریزی زبان میں آتا ہے جس کو پڑھانے کے لیے بھی کسی زیرک وکیل کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ ویلج کونسل کے دفتر سے لے کر صدر و وزیراعظم کے دفاتر تک انگریزی ہی سرکاری زبان کے طور پر مستعمل ہے جس سے عوام بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ دفتری معاملات سے ناواقف رہتے ہیں حالانکہ حقائق سے آگاہ رہنا عوام کا بنیادی ہے۔


سپریم کورٹ آف پاکستان نے چند سال قبل تمام عدالتی فیصلے قومی زبان اردو میں جاری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے ۔ بدقسمتی سے عملدرآمد یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے تمام سرکاری تقریبات میں اردو زبان کے استعمال کا حکم دیا لیکن غیر سنجیدگی اور عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ اس کا مراسلہ بھی انگریزی زبان میں جاری کیا گیا ہے۔ جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ غلاموں کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرنے کے لیے شاید طویل مدت درکار ہوگی۔
بہرحال اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لیے عدالتی احکامات اور وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والا مراسلہ امید کی کرن ہیں۔جلد یا بدیر قوم عملدرآمد کی منتظر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :