یہ ایک خوفناک حقیقت ہے

منگل 8 دسمبر 2020

Umar Farooq

عمر فاروق

وہ جنازے سے واپس آئیں تھیں یہ ان کے کسی قریبی رشتہ دار کا جنازہ تھا انھیں اس کا سخت صدمہ پہنچا اور اچانک طبیعت بگڑ گئی یہ عمر کے آخری حصے میں تھیں ان سے یہ صدمہ برداشت نا ہوسکا اور اچانک ہارٹ اٹیک ہوگیا ہسپتال لے جایا گیا مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا "انھیں فورا لاہور شفٹ کردیا جائے وگرنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے" وہ ہسپتال تو پہنچادیں گئیں لیکن جان نہ بچائی جاسکی اور یوں چند آشنا چہروں میں سے ایک اور چہرے کی کمی ہوگئی، ہم انسان زندگی میں بہت کم لوگوں کو جانتے ہیں اس وقت دنیا کی ٹوٹل آبادی ساڑھے سات ارب سے زیادہ ہے جبکہ ہم ساڑھے سات ارب لوگوں میں سے گنے چنے لوگوں تک محدود ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہماری زندگی' ہمارا کل اثاثہ' ہمارا مکمل سرمایہ ہوتے ہیں، ان لوگوں میں سے کسی ایک کی کمی کے بعد انسان کتنا غمگین' کتنا اداس ہوجاتا ہے اور ان کی رخصتی نے مجھے بھی اداس کردیا ہے.
میں انھیں بچپن سے دیکھتا آرہا تھا، میں نے ہمیشہ ان سے سیکھا تھا وہ بوڑھی تھیں لیکن بڑھاپے کے باوجود کبھی بوڑھی محسوس نہ ہوئی تھیں وہ سارا دن بھاگ دوڑ میں مصروف رہتی تھیں، صبح اٹھتیں' نماز پڑھتیں اور سیر پر نکل جاتیں تھیں، میں نے ان کے ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح دیکھی تھی جسے وہ ہروقت گھماتی رہتی تھیں، پورا محلہ ان سے واقف تھا، میں نے انھیں ہمیشہ راستے سے پتھر ہٹاتے دیکھا تھا وہ راستوں پر گندگی پھیلانے والوں کے سخت مخالف تھیں اب راستوں پر پتھر ہیں لیکن کوئی ہٹانے والا نہیں ہے ان کی وفات کے بعد پتھر راستے پر پڑے رہتے ہیں اور کوئی نا کوئی ٹھوکر کھاکر آگے نکل جاتا ہے مگر کوئی اٹھاتا نہیں.
وہ جاتے جاتے مجھے پھر بتاگئیں یہ دنیا فانی ہے بقا کی دنیا سے رشتہ جوڑنے کیلئے یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا، مجھے ان کی وفات کے بعد پتا چلا انسان کی عمر کم جبکہ اس کی یادوں کی عمر زیادہ ہے، شخص مٹ جاتا ہے لیکن شخصیت باقی رہ جاتی ہے، شخصیت یادوں کا مجموعہ ہوتی ہے، ہماری یادیں جتنی اچھی ہوں گئیں لوگ ہمیں اتنا ہی اچھا سمجھیں گے، بری یادوں والے لوگوں کو اچھی شخصیت کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ مجھے پتا چلا ہم کتنے بڑے خسارے میں ہیں ہم ہرروز کسی نا کسی جاننے والے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھتے ہیں، ہمارے سامنے سے بیشمار جنازے گزرتے ہیں، ہمیں روز کسی نا کسی فوتگی کی خبر ملتی ہے یہ لوگ یہ جنازے یہ اعلانات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں "ہم میں سے ہر ایک کو کسی نا کسی دن یہاں سے کوچ کرنا ہے" لیکن ہم اس حقیقت کو جاننے کے بعد اجنبی بنے رہتے ہیں بلکہ مال جمع کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں.
ہم اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرلیتے ہمارے ساتھ مال نہیں بلکہ ہمارے اعمال جائیں گے، ہم جتنی محنت مال کمانے کیلئے کرتے ہیں اتنی توجہ اعمال سدھارنے پر کیوں نہیں لگاتے؟ ہم ساری عمر خود کو ہوشیار'چالاک'زیرک سمجھتے رہتے ہیں لیکن جونہی ہماری آنکھ کھلتی ہے ہمیں اپنی کم فہمی' کم عقلی کا اندازہ ہوجاتا ہے یہاں تو اعمال کام آئیں گے یہاں پر حسب ونسب' عہدے' مال وزر کسی کام کا نہیں.
جس طرح اچھے اعمال کا نتیجہ برا نہیں ہوسکتا اسی طرح برے اعمال کرکے اچھے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ لہذا ہمیں غلط فہمیوں سے باہر نکل کر اچھے اعمال کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے، مجھے پتا چلا قدرت کسی کی رشتہ دار نہیں ہوتی یہ اعمال کی بناء پر فیصلے کرتی ہے، یہ جس طرح منصف ہے اسی طرح بے رحم بھی ہے دنیا کے فیصلوں میں ردوبدل ہوسکتا لیکن قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیاروں کو چھین لیتی ہے اسے ہمارے آنسوؤں' ہماری ہچکیوں' ہمارے دکھوؤں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا یہ آج کل میں ہمیں بھی اپنے پاس بلالے گی چناں چہ اگر ہمیں اس کے پاس جانا ہی ہے تو پھر ہم کیوں نا خود کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کردیں اسی طرح میں نے ان کی وفات کے بعد چند ایسے لوگوں کو  سوگ مناتے دیکھا جنھیں ان سے بات کرنا ناگوار گزرتی تھی جو ان کی طرف دیکھ کر رستہ بدل لیتے تھے آج وہی لوگ غمدیدہ تھے انکی گالوں پر آنسو لڑکھڑارہے تھے میں نے ان کی طرف دیکھا اور خود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا " تم کبھی ایسی منافقت نہ کرنا " کاش ہم نے جس کے مرنے پر رونا ہے اس کو زندگی میں رلانے سے باز آجائیں تاکہ کل یہ نا ہو وہ چلا جائے اور ہم آنسو پونچھتے رہ جائیں�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :