غریبوں کاایک ہاراہواایم پی اے

اتوار 5 اگست 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

عام انتخابات میں ویسے مولانافضل الرحمن،سراج الحق،شاہدخاقان عباسی اورعابدشیرعلی جیسوں سمیت نہ صرف بڑے بڑے برج الٹ گئے بلکہ بے شمارچھوٹے موٹے سیاسی مگرمچھ زندگی میں پہلی مرتبہ ہارے بھی ،ہارنے والوں میں بٹگرام کے صوبائی حلقے پی کے 29سے مولاناعطاء محمددیشانی بھی شامل ہے۔دیشانی ہارے یابقول ان کے انہیں ہرایاگیا۔بہرحال یہ ایک الگ داستان اورکوئی علیحدہ کہانی ہے۔

ویسے زمین کے جس ذرے پروڈیروں کی بادشاہت،چوہدریوں کی چوہدارہٹ،سرداروں کی سرداری اورخانوں کی خانگی کانظام قائم ہووہاں غریبوں کے قبیل سے تعلق رکھنے والے عطاء محمددیشانی جیسے لوگوں کونہ صرف ہرایاجاتاہے بلکہ بسااوقات توان کاسربھی کسی آہنی راڈیابھاری بھرپتھرسے کچلاجاتاہے۔

(جاری ہے)

شائدیہی وجہ ہے کہ ملک میں وہاں وہاں جہاں وڈیروں کی بادشاہت،چوہدریوں کی چوہدارہٹ،سرداروں کی سرداری اورخانوں کی خانگی کانظام قائم ہے وہاں کی اکثریت کبھی بھول کے بھی سراٹھاکر نہیں چلتی اوراسی میں ان لوگوں کی بقاء اوربھلائی کارازمضمرہوتاہے۔

کیونکہ کسی چوہدری ،سردار،وڈیرے اورخان کے سامنے اٹھنے والاسرپھرسالم نہیں رہتا۔موبائل ،انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکی برکت سے ملک سے بادشاہت،چوہدارہٹ، سرداری اور خانگی نظام کاتقریباً خاتمہ ہوچکالیکن چوہدریوں،وڈیروں،خانوں اورسرداروں کے اثرات کی وجہ سے درباری نظام آج بھی کچھ علاقوں میں قائم ہیں۔بٹگرام میں بھی خانگی نظام تقریباًدم توڑچکالیکن خوانین کی درباریں ماضی کی طرح آج بھی آبادہیں،بٹگرام میں خوانین کے سامنے سراٹھانے کوآج بھی بدترین گناہ اورناقابل معافی جرم تصورکیاجاتاہے،مولاناعطاء محمددیشانی کوبٹگرام کے خوانین آج بٹگرام کے ،،سب سے بڑے سرکش،،کاخطاب اس لئے دے رہے ہیں کہ دیشانی نے پہلی بارضلع میں خوانین کے چودہ طبق روشن کرنے والے لفظ ،نا،،کومتعارف کرایا،عطاء محمددیشانی سے پہلے توبٹگرام کے خوانین نے،، جی خان جی،، کے علاوہ کوئی لفظ کسی کے منہ سے سناہی نہیں تھا۔

ایسے ماحول اورنظام میں جب ہرطرف ،، جی خان جی،، کالفظ بولتااورسکہ چلتاتھاایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے عطاء محمددیشانی نے ،،ناخان جی نا،،کی اصطلاح متعارف کرکے جہاں سرکشی کی انتہاء کی وہیں انہوں نے خوانین کے بلندوبالاقلعوں میں ایک ایسا نقب بھی لگایاجس کادائرہ اورسوراخ پھرہرگزرتے دن کے ساتھ وسیع ہوتاگیااورپھرچشم فلک نے وہ دن بھی دیکھے جب بٹگرام میں ہرطرف سے ،،ناخان جی نا،،کی صدائیں بلندہونے لگیں۔

درباریت کالبادہ اوڑھے سرکاری افسران جوخوانین کی چاپلوسی کی وجہ سے غریب عوام کوبھی اپناغلام سمجھتے تھے عطاء محمددیشانی نے جس طرح انہیں گریبانوں سے پکڑکرگھسیٹاوہ بھی بٹگرام کی تاریخ میں ایک نیااضافہ اورخوانین کے منہ پرطمانچہ تھا،خوانین کوللکارتے للکارتے دیشانی خوانین کی آنکھوں کاکانٹابن گئے،اس کانٹے کونکالناپھربے چارے خوانین پرفرض ہوچکاتھا۔

عطاء محمددیشانی اگرخان ازم کونہ للکارتے ،وہ بھی اگردوسرے درباریوں کی طرح حالات کے قدموں میں گرکرروایتی سیاستدانوں اورمفادپرستوں کی طرح خان ازم کوگلے لگاکرخوانین کی قدم بوسی کرلیتے توانہیں انتخابات میں ضلع بٹگرام کے کسی نہ کسی کونے یاحلقے سے بھاری حصہ آرام وسکون سے مل جاتامگرعلامہ دیشانی بھی یہ کہتے ہوئے کہ ،،قلندرحالات کے قدموں میں کبھی نہیں گرتے،، بچوں کی طرح بڑے ضدی ٹھہرے۔

اسی ضدکانتیجہ تھاکہ بٹگرام کے خوانین نے پھردیشانی کوسبق سکھانے کے لئے کوئی بھی طریقہ اورحربہ نہیں چھوڑا،ماضی میں جوخوانین گھربیٹھے الیکشن جیتنے کی خوشخبری سناکرتے تھے اب کی باروہ سنگلاح پہاڑوں اورکٹھن وادیوں میں ایک ایک ووٹ مانگتے ہوئے دکھائی دےئے،عطاء محمددیشانی 25جولائی کوہونے والے انتخابات میں جیتے یاہارے،اس پربحث کرنے سے ہمیں کوئی سروکارنہیں لیکن اتناہم ضرورکہیں گے کہ غریبوں کے یہ امیدوارہارکربھی جیتے،ہم نے پہلی بارایسے بندے کوبھی اس ملک میں دیکھاجوہارکربھی ہزاروں لوگوں کے ایم پی اے بنے۔

انتخابات کے چنددن بعدایبٹ آبادمیں بٹگرام کے ایک رہائشی سے ہماری ملاقات ہوئی،باتوں باتوں میں اس کی ایک بات ہمارے دل کولگی ،کہنے لگے الیکشن والی رات اکثرلوگ عطاء محمددیشانی کی جیت کاجشن منارہے تھے اچانک جب اس کی شکست کی خبرآئی تومیں نے اپنے آس پاس ایک دونہیں بے شمارلوگوں جن میں بوڑھے جوان اوربچے تک بھی شامل تھے زوروقطارروتے ہوئے دیکھا۔

کئی توایسے پھوٹ پھوٹ کررورہے تھے جیسے ان سے کسی نے ان کی زندگی ہی چھین لی ہو۔انتخابات میں جب عطاء محمددیشانی کے مخالف امیدوارکی کامیابی کاباقاعدہ اعلان ہواتوبٹگرام کی شاہراہوں پرپھربطوراحتجاج عوام کاوہ سمندرامڈآیاکہ جس نے ضلع کی تاریخ ہی بدل ڈالی،لوگ تین دن تک دن اوررات مسلسل بطوراحتجاج کھلے آسمان تلے سڑکوں پربیٹھے رہے۔ہارجیت سیاست کاحصہ،انتخابات میں بھی کوئی ہارتاہے اورکوئی جیتتا،سارے امیدوارتونہیں جیتتے،عطاء محمددیشانی بھی ہارگئے لیکن حقیقت میں بٹگرام کے عوام نے ہارے ہوئے دیشانی سے جس پیار،محبت اوریکجہتی کااظہارکیاہے وہ ہارنہیں وہ جیت ہے جس کے لئے اکثرسیاستدان برسوں سے ترستے اورتڑپتے ہیں ۔

ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کئی سیاستدان جھوٹ،فریب،دھوکہ،لوٹ مار،کرپشن اورچوری چکاری کی وجہ سے جیت کربھی عوام کے ایم این اے اورایم پی اے نہ بن سکیں لیکن بٹگرام کے عطاء محمددیشانی ہارکربھی غریب عوام کے ایم پی اے بن گئے،عطاء محمددیشانی کوئی جاگیردارہے نہ کوئی سرمایہ دار،وہ روایتی سیاستدان بھی نہیں ،انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں صرف عوامی حقوق کے تحفظ کے لئے جان ہتھیلی پررکھ کرآوازبلندکی ،اس نے جہاں کسی مجبور،مظلوم اورغریب کودیکھااسے گلے سے لگایا،اسے جہاں بھی کوئی قدم کسی غریب کی طرف بڑھتے دکھائی دےئے اس نے اس قدم کواسی جگہ پرروکے رکھا،ممبری ،کرسی اورکسی عہدے کے بغیرعطاء محمددیشانی نے جب لوگوں کی خدمت کواپناشعاربنایاتوپھرلوگوں نے بھی وقت آنے پرانہیں دلوں میں بساکرسرپربٹھایا،ہمارے منتخب ممبران اورسیاستدانوں کوہارے ہوئے دیشانی کی عوامی جیت سے کچھ سبق حاصل کرکے اپنی تمام ترتوانائیاں ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی پرصرف کرنی چاہئیں۔

جولوگ ایم این اے اورایم پی اے ہوکربھی عوام کے دل جیت نہ سکیں انہیں پھرسیاست کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتاکیونکہ اصل ایم این اے اورایم پی اے انتخابات میں جیتنے والے نہیں ہوتے بلکہ جولوگ اورسیاستدان عوامی خدمت کے ذریعے ایک باربھی عوام کے دل جیت جائیں وہ پھرعطاء محمددیشانی کی طرح ہارکربھی ایم پی اے اورایم این اے بن جاتے ہیں ۔اس لئے ممبری کیلئے کسی اقتداراورکرسی نہیں بلاتفریق عوامی خدمت کی ضرورت ہے جس سے ہمارے اکثرسیاستدان اورمنتخب ممبران آج بھی ناآشناء ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :