بابا کی عظمت کو سلام

پیر 29 اکتوبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بڑازبردست مزاج اورحسین امتزاج تھاان کا۔۔ان کی شخصیت،نصیحت،وصیت،اعمال ،افعال اورکردارکودیکھ کربعض نہیں اکثراوقات یوں محسوس ہوتاتھاکہ شائدیہ شخص اس دنیاجس میں جھوٹ،فریب ،دھوکہ،بددیانتی ،خیانت ،ظلم وستم کابازارہرروزاورہرطرف گرم ہوتاہے یہ اس بے رحم دنیا کاباسی ہی نہیں، جھوٹ،فریب ،دھوکہ اورفراڈسے وہ حددرجے تک نفرت کرتے تھے،سچائی ،اخلاص،دیانت،امانت،غیرت ،حمیت،شرم وحیااوروفاکی نعمتوں سے وہ اس قدرمالامال تھے کہ کوئی اپناہویابیگانہ۔

۔ ہرکوئی ان کادیوانہ اورپروانہ تھا۔۔کوئی بڑے سے بڑادشمن بھی ایک بار ان سے ملتاتوپھروہ بھی بغیرکسی صلح،راضی نامے اور بیعت کے ان کامریدبنے بغیرنہ رہتا۔ان کی ڈکشنری میں شکست نام کاکوئی لفظ توتھاہی نہیں ،ان کے بلندحوصلے کودیکھ کر بعض اوقات ایسے لگتاجیسے یہ ابھی ابھی کسی طاقتوردشمن کوشکست دے کرآئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان کے پہاڑجیسے حوصلے،ہمت وبہادری کودیکھ کریقین ہونے لگتاکہ یہ شخص اس دنیامیں کہیں آیاہی جیت کے لئے ہے۔

کمزوراورناتواں جسم کے باوجودقدرت نے انہیں ایساروب اوردبدبہ دیاتھاکہ بڑے بڑے سیاسی پہلوان اورظالم حکمران بھی ان کے غصے اورجلالی آنکھوں کے سامنے کانپنے لگتے۔ڈراورخوف کاتوان پرسایہ بھی کبھی نہیں پڑاتھا۔ان کی للکاراورپکارکودیکھ کران پرکسی شیرکاگمان ہوتاتھا۔قومیت،لسانیت اورتعصب کووہ کبیرہ گناہوں میں شمارکرتے تھے ۔بزدلی،بے غیرتی اورغلامی پروہ دن میں ہزاربارلعنت بھیجتے تھے۔

اسی وجہ سے جب تک وہ جےئے سراٹھاکرغیرت،عزت اورآزادی سے جےئے۔قائدتحریک صوبہ ہزارہ باباسردارحیدرزمان نے دنیاسے جاتے جاتے ہمارے سمیت لاکھوں اورکروڑوں لوگوں کودکھی اورغمگین کردیاہے۔باباکی وفات پرہزارہ حقیقت میں یتیم ہوگیاہے ۔موت اٹل حقیقت ہے اس سے نہ انکارممکن ہے اورنہ ہی فرارکی کوئی راہ ہے۔چھوٹاہے یابڑا،امیرہے یاغریب،حکمران ہیں یاعوام ،سب نے ایک نہ ایک دن موت کاذائقہ ہرحال میں چکھناہے۔

باباکادنیاوی سفرتمام اوروقت پوراہوگیاتھااسی وجہ سے وہ بھی دارفانی سے داربقاء کی طرف کوچ کرگئے۔باباسردارحیدرزمان تودنیاسے چلے گئے لیکن سچائی ،اخلاص،دیانت،امانت،غیرت ،حمیت،شرم وحیا،ثابت قدمی ،بے باکی سمیت وہ قوم کے لئے جرات اوربہادری کی ہزاروں مثالیں اور پوری ایک تاریخ پیچھے چھوڑکرگئے۔باباہمیشہ ایک بات کہتے تھے اورموت سے چنددن پہلے بھی انہوں نے یہی بات کہی ۔

باباکہتے تھے کہ اپنے لئے توہرکوئی جیتاہے زندگی کااصل مزہ توتب ہے کہ انسان دوسروں کے لئے جےئے۔شائدیہی وجہ تھی کہ بابازندگی کی آخری سانس تک دوسروں کے لئے ہی جیتے رہے۔ذات اورمفادکابابانے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا۔باباسردارحیدرزمان ہزارہ کے عوام کوظالم حکمرانوں اورمفت میں بننے والے نوابوں،چوہدریوں ،رئیسوں اورخانوں کے چنگل سے آزادکرواناچاہتے تھے۔

باباکی خواہش تھی کہ ہزارہ کے عوام کوان کی اپنی شناخت ملے اسی وجہ سے صوبہ ہزارہ کے قیام کووہ زندگی کامین مقصداورسب سے بڑی خواہش قراردے کراپنی زندگی ہزارہ اورہزارہ کے عوام کے لئے وقف کرچکے تھے۔ہسپتال ہویاگھر،جلسہ ہویاکوئی جلوس،سامنے اپناہویاکوئی بیگانہ ،باباکی زبان پرہروقت صوبہ ہزارہ کانعرہ ہوتاتھا۔بابانے اپنی طرف سے صوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے وہ کچھ کیاجوآج تک کوئی نہیں کرسکا۔

مگرافسوس اتنی محنت،جدوجہداورقربانیوں کے باوجودسیاسیوں کے ذاتی مفادات اورقوم کی بے وفائی کی وجہ سے باباکاصوبہ ہزارہ کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیرنہ ہوسکا۔حالانکہ صوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے باباسے جوہوسکاوہ انہوں نے کیا۔ 2010میں جب صوبے کانام صوبہ سرحدسے تبدیل ہوکرصوبہ خیبرپختونخوابناتوصوبے کوشناخت ملنے کے بعدپھرہزارہ کے عوام کوان کی شناخت دلانے کی غرض سے باباسردارحیدرزمان صوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے نہ صرف متحرک ہوئے بلکہ سرپرکفن باندھ کرگھرسے بھی نکل آئے۔

اسی دوران اپنے حقوق کے لئے لڑتے لڑتے ہزارہ کے عوام پرایک قیامت ٹوٹ پڑی اورہزارہ کی تاریخ کاایک بہت بڑاسانحہ رونماہواجس میں ہزارہ کے سات جوان دھرتی ماں پرقربان ہوئے۔اس وقت ہزاہ کابچہ بچہ باباکی آوازپرلبیک کہہ کرصوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے سروں پرکفن باندھ کرمیدان عمل میں نکل آیاتھا۔باباکی دلیرانہ قیادت اورعوام کی طاقت کی بدولت کئی دن تک ہزارہ بھی جام رہا۔

اس وقت یہ اسی باباکی للکارتھی جونہ صرف پشاوراوراسلام آبادمیں بیٹھنے والے حکمرانوں کے محلوں میں گونجی بلکہ پوری دنیامیں ایسی پھیلی کہ پھرمغرب سے مشرق اورشمال سے جنوب تک ہرزبان پربابااورہزارہ کاذکرتھا۔بابانے شہدائے ہزارہ کی خون آلودنعشوں کواپنے ہاتھوں سے لحدمیں اتارا،اپنے ناتواں کندھوں پرایک دونہیں کئی جنازے اٹھائے،نوازشریف،آصف علی زرداری اورپرویزمشرف جیسے وقت کے طاقتور حکمرانوں کی سرخ آنکھیں بھی دیکھیں ،آرام سے نہ بیٹھنے اورمئوقف سے پیچھے نہ ہٹنے پر ہتھکڑیوں،بیڑیوں،تھانوں،کچہریوں اورکال کوٹھریوں میں زندگی گزارنے کی دھمکیاں بھی اپنے کانوں سے سنیں لیکن آگ اورخون کادریاسامنے دیکھتے ہوئے بھی باباکبھی ایک منٹ کے لئے بھی اپنے مئوقف اورمشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔

سرسے پاؤں تک باباکا وجودہی غیرت کے خمیرسے بناتھا،کسی ظالم ،جابراوربااثرکے سامنے سرجھکانے کووہ بے غیرتی کانام دیتے تھے۔نہ منہ چھپاکرجےئے ہم نہ سرجھکاکے جئے ۔۔ستمگروں کی نظروں سے نظریں ملاکے جےئے۔۔اب اک رات کم جےئے توکم ہی سہی۔۔یہی بہت ہے کہ مشعلیں جلاکے جےئے۔۔لوگ دنیامیں مال ،دولت اورشہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن باباان چیزوں سے بھی ناآشناء تھے۔

ذات اورمفادکاتوسایہ بھی کبھی باباپرنہیں پڑا۔وہ عزت،غیرت،جرات،بہادری ،سچائی اورایمانداری کودنیاکی سب سے بڑی دولت قراردیتے تھے اوریہ ساری چیزیں باباجی کی صفات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ کسی بااثراورطاقتورکوسامنے دیکھ کراکثرلوگوں کے پاؤں لڑکھڑاجاتے ہیں لیکن بابااس معاملے میں بھی ہدنیاسے مختلف بلکہ بہت مختلف نکلے۔۔حکمرانوں سے پنگالینے کاتوعام آدمی سوچ بھی نہیں سکتالیکن باباوقت کے حکمران رہنے والے ایک سابق وزیراعظم کے مقابلے میں ایک نہیں دوبارسینہ تان کرایسے کھڑے ہوئے کہ وہ منظرپھردنیاآج تک بھول بھی نہ سکی۔

سابق وزیراعظم نوازشریف جب ایبٹ آبادکے قومی حلقے سے الیکشن لڑرہے تھے تووہ ہزارکوششوں اورکروڑوں روپے کی آفرکے ذریعے بھی باباکی غیرت اورحمیت کوخریدنہ سکے۔باباکواگرہزارہ کے عوام کی بجائے ذات اورمفادکی کوئی فکرہوتی تووہ نوازشریف سے کروڑوں روپے لیکرآرام سے گھربیٹھ جاتے مگردنیانے اس وقت بھی دیکھاکہ باباکروڑوں روپے کی آفرٹھکراکرنوازشریف کے مقابلے میں نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ آخری وقت تک سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح کھڑے بھی رہے۔

بابادل کے بڑے غنی تھے ،ان کے گھرآنے والاوقت کاکوئی حکمران بھی کبھی باباکے گھرسے خالی ہاتھ واپس نہیں گیا،باباکادسترخوان توعام وخاص سب میں مشہورتھا۔کوئی باباکے گھرجائے اوروہ پھربغیرکچھ کھائے یاپےئے باباکے گھرسے واپس ہوایساتوممکن ہی نہیں تھا۔بابانے دل کے ساتھ اپنے گھرکے دروازے بھی ہمیشہ دنیاکے لئے واکئے۔باباکے جانے سے ہزارہ اب یتیم ہوگیاہے۔

ایک باباہی توتھے جن کے ڈراورخوف کی وجہ سے دنیاہزارہ والوں کی طرف میلی آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرسکتی تھی۔باباکے جانے سے اب ہزارہ اورہزارہ کے عوام کاوہی حال ہوگاجوکسی یتیم کاہوتاہے،اب تک توہمارے اوپرباباکاسایہ تھاجس کی وجہ سے گرمی ،سختی،دھوپ،آزمائش،امتحان ،انتقام اورحکمرانوں کے مظالم ہم سے کنارہ کرتے تھے لیکن اب ایسانہیں ہوگا،اب ہم ہوں گے اورہزارہ کے دشمن ،جواب ہمیں کچاچبانے سے بھی ہرگزدریغ نہیں کرینگے ۔ایسے میں ہزارہ کے بدقسمت عوام کواب سمجھ آئے گی کہ باباکس ہیرے،کس سائے اورکس نعمت کے نام تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :