آبادی نہیں لوٹ مارکوکنٹرول کرو

جمعہ 7 دسمبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بچے دوہی اچھے،سناہے اس دیس جس کو،،چڑیاں چک گئیں کھیت،، کے مصداق سیاسی چڑیے سال دونہیں سالوں سے چک چکے ہیں یانان سٹاپ چک رہے ہیں میں ظلم اورناانصافی کے راستے روکنے کی بجائے آبادی کوکنٹرول کرنے کے لئیسرجوڑلئے گئے ہیں۔آبادی کوکنٹرول کرنے کے بارے میں سوچ وبچار،پلان،منصوبہ بندی اوراس سے جڑے دیگرسرکاری اقدامات ہمیں کچھ عجیب عجیب سے لگتے ہیں۔

ہماراتونہ صرف یہ یقین بلکہ ایمان بھی ہے کہ جس طرح دنیاسے جانے والے کسی جاندارکاراستہ دنیاکی کسی طاقت کے ذریعے نہیں روکاجاسکتااسی طرح آنے والے کسی ذی روح کوبھی دنیامیں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔زندگی ،موت اورکسی کوبچے دینے اورنہ دینے کااختیاروکمال صرف ہمارے اس رب کے پاس ہے جس کی مرضی،طاقت اورمنشاء کے سامنے دنیاجہان کی کوئی بھی طاقت نہیں ٹھہرسکتی۔

(جاری ہے)

وہ چاہے کسی کوایک سال بعدجڑواں چاراورپانچ بچے دے،چاہے توکسی کوپچاس پچاس سال یاعمربھرکوئی ایک بچہ بھی نہ دے۔ہماری والدہ ماجدہ اللہ ان کی قبرپرلاکھوں اورکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے جب حیات تھیں تووہ ہمیں ایک بات کہتی تھیں کہ اللہ کے کاموں اوربجلی کی تاروں میں انگلیاں نہ ماراکرو۔جولوگ اللہ کے کاموں میں انگلیاں مارتے ہیں وہ پھردنیاکے لئے عبرت کانشان بن جاتے ہیں ۔

فرعون جب اللہ کے کاموں میں انگلیاں مارنے سے بازنہیں آیا تواللہ نے اسیقیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے عبرت کانشان بنادیا۔بجلی کی تاروں میں انگلیاں مارنے والے توپھربھی اکثربچ جاتے ہیں لیکن اللہ کے کاموں میں انگلیاں مارنے والوں کابچناتوپھرممکن ہی نہیں ہوتا۔موت وحیات یعنی کس کودنیاسے اٹھاناہے اورکس کودنیامیں لاناہے اس پرصرف اورصرف ہماراوہی رب ہی قادرہے۔

دنیاکاکوئی حکمران،ڈاکٹر،حکیم اورکوئی مولوی نہ توکسی کودنیاسے اٹھاسکتاہے اورنہ ہی کسی کودنیامیں لاسکتاہے۔آج تک ایسا کوئی بچہ دکھائیں جس کوکوئی حکمران،کوئی ڈاکٹر،کوئی حکیم یاکوئی مولوی دنیامیں لائے ہوں۔بچوں کودنیامیں لانایاان کاراستہ روکنااگرکسی حکمران،کسی ڈاکٹر،کسی حکیم اورکسی مولوی کے بس کی بات ہوتی توآج نہ صرف اس ملک بلکہ پوری دنیامیں ہزاروں اورلاکھوں شادی شدہ بے اولادجوڑے ایک ایک بچے کی پیدائش کی تمنا،آرزواورامیدمیں دردرکی خاک کبھی نہ چھانتے۔

کہنے کی حدتک انسان بہت کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن رب کی قدرت کے سامنے پھر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ مشہورامریکی گلوکارمائیکل جیکسن دنیاسے نہیں جاناچاہتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے۔اس مقصدکیلئے انہوں نے کیاکچھ نہیں کیا۔کہنے والوں کے مطابق مائیکل جیکسن نے موت سے بچنے کے لئے جوتدبیریں کی تھیں ،جوہاتھ پاؤں مارے تھے،جوپلان بنائے تھے،وہ سن کربھی انسان حیران رہ جاتاہے۔

کہاجاتاہے کہ امریکی گلوکارمائیکل جیکسن ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔اس مقصداورطویل عمر پانے کیلئے مائیکل جیکسن دلچسپ حرکتیں کرتاتھا ۔مثلا وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا وہ جراثیم وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔

یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے۔ اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا۔ اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں، گردوں، آنکھوں ،دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا ۔یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضا ء اسے عطیہ کر دینا تھے۔

چنانچہ اسے یقین تھا وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے گا۔ لیکن پھر 25جون کی رات آئی اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی۔ اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئرڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا۔یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے۔ لیکن ناکام ہوئے تو یہ اسے ہسپتال لے گئے اور وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا۔

جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا۔ جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا تھا۔ وہ شخص 50سال کی عمر میں ہی اس دنیاسے چل بسا۔ اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی۔مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا۔

وہ سر سے گنجا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اس کے کولہے کندھے پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے پین کلرز کا محتاج ہو چکا تھا ۔چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اس جہان شفٹ ہو گیا جس میں ہر زندہ شخص نے پہنچنا ہے اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔

مائیکل جیکسن کی موت ہم سب کے لئے ایک اعلان اوربہت بڑاواضح پیغام ہے کہ انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن موت وحیات کے بارے میں قدرت کے فیصلے کوہرگزتبدیل نہیں کرسکتا۔اس لئے آبادی کوکنٹرول کرنے کے خواب دیکھ کرہمیں اپناوقت اورسرمایہ ضائع نہیں کرناچاہئے۔جوکام ہمارے بس میں نہیں ان میں پھر پڑنے کی کیاضرورت۔۔؟آبادی کوکنٹرول کرنے کے لئے ہمارایہ استدلال کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث عذائی قلت سمیت دیگرکئی مسائل جنم لے رہے ہیں ۔

یہ غلط اورحقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔عذائی قلت سمیت آج ہمیں جن مسائل کابھی سامناہے ان کے ذمہ دارہم خودہیں ۔دنیامیں آنے والاہرشخص اپنے ساتھ اپنارزق لیکرآتاہے۔جس قدرآبادی زیادہ ہوتی ہے اس قدر اللہ تعالیٰ اپنے خزانوں سے اسباب اوروسائل بھی زیادہ عطاء فرمادیتے ہیں ۔انسان کورزق دینے کاذمہ تواس رب نے لیاہے جن کے خزانوں میں کسی چیزکی کوئی کمی نہیں ۔

اس ملک اورمعاشرے میں عدم توازن کی جوصورتحال اس وقت پیداہوئی ہے وہ آبادی میں اضافے سے نہیں بلکہ اختیارات،اسباب اوروسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اوربے انصافی کی وجہ سے ہے۔وہ اسباب اوروسائل جن پرپوری قوم کاحق تھاان پر71سالوں سے صرف10فیصدبڑے بڑے مگرمچھوں اوراژدھوں نے قبضہ جمایاہواہے۔ملک میں لوٹ مار،کرپشن،ماردھاڑاورغریبوں ،مظلوموں ،بے سہاراوبے کسوں کے حقوق پرڈاکے ڈالنے کی وجہ سے آج دس فیصدلوگوں کے پاس تودنیاجہان کی ہرشئے موجودہے مگر90فیصدلوگوں کے پاس پیٹ کاجہنم بھرنے کے لئے ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ۔

ملک سے لوٹ مار،کرپشن،بے انصافی اورماردھاڑکاکھیل اگرختم کردیاجائے توپھرعذائی قلت ،آبی بحران سمیت ہمارے یہ سارے مسائل خودبخودختم ہوجائیں گے اورپھرہمیں آبادی پرکنٹرول پانے کے لئے سوچنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔اس لئے حکمرانوں اورارباب اختیارکوآبادی کوکنٹرول کرنے پراپنی توانائیاں اورقیمتی وقت سرف وضائع کرنے کی بجائے لوٹ مار،کرپشن،بے انصافی اورماردھاڑکے کھیل بے مہارکوکنٹرول کرنے کے لئے خلوص دل سے حقیقی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ہمارے ان مسائل کاحقیقی معنوں میں خاتمہ ممکن ہوسکے۔ جب ملک میں لوٹ مار،کرپشن،بے انصافی اورماردھاڑکاکھیل کنٹرول ہوگاتوپھربڑھتی آبادی سے پیداہونے والے یہ مسائل بھی خودبخودکنٹرول ہوجائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :