ووٹ نہیں ۔۔ضمیر کو عزت دو

پیر 6 ستمبر 2021

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

یہ کو ئی پندہ بیس سال پہلے کی بات ہے ملک میں عام انتخابات کادوردورہ یازمانہ تھا۔میرانیانیاشناختی کارڈبناتھا۔پرانے پاکستان میں اس وقت شناختی کارڈبھی پرانے ماڈل کے بناکرتے تھے۔اس زمانے میں نادراکے یہ وین اور ٹرین نہیں تھے۔بس شناختی کارڈکاایک آفس ہواکرتاتھاجس میں بیٹھے بابوہاتھ سے شناختی کارڈبنایاکرتے تھے۔پرانے ماڈل کے ان شناختی کارڈکی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ آدمی کے مرنے کے بعدبھی ایکسپائرنہیں ہوتے تھے۔

یہ ایکسپائروالی تھیوریاں توبہت بعدمیں ایجادہوئیں۔خیرشناختی کارڈبننے کے بعدچونکہ میں بھی ایک ووٹرکے درجے پرفائزہوچکاتھااس لئے ووٹ پول کرنے کے لئے اوروں کے ساتھ میں بھی صبح صبح دوڑتاہواانتخابی سنٹرپہنچا۔یہ میراپہلاالیکشن اورزندگی کاپہلاسیاسی امتحان تھا۔

(جاری ہے)

وہ وقت ،وہ دن اوروہ منظرمجھے آج بھی اچھی طرح یادہے۔جس طرح گاؤں،دیہات،شہروں اورعلاقوں میں سب کی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں اسی طرح ہمارے خاندان کی بھی سیاسی وابستگی تھی بلکہ ہمارے داداسیداکبرمرحوم نہ صرف خاندان بلکہ پورے گاؤں کے ایک رہبرورہنماء کے طورپرجانے اورپہچانے جاتے تھے ۔

اس لئے جس امیدوارکابھی انتخابی مہم کے سلسلے میں ہمارے گاؤں اورعلاقے سے گزرہوتاتووہ ہمارے دراورگھرپرحاضری ضرورلگاتے۔یہ سب جانتے ہیں کہ خاندان کے بڑوں کافیصلہ اٹل ہوتاہے۔وہ فیصلہ چاہے غلط ہویاصحیح۔چھوٹوں کوپھراس کوہرحال میں مانناپڑتاہے۔انتخابی سنٹرجانے سے پہلے مجھے بھی اچھی طرح سمجھایا،سیکھایااورپڑھایاگیاتھاکہ مہرکس پرچی اورکس نام پرلگانی ہے۔

سیاست میں چونکہ میری بچبن سے دلچسپی تھی اس لئے مجھے پتہ تھاکہ الیکشن لڑنے والے امیدواروں میں کون کس قابل ہے۔اندرتک تومیں سب کو نہیں جانتاتھالیکن سیاست بروزن عبادت تک میں ایک ایک کی نیت،رگ اورعزائم سے تقریباًاچھی طرح واقف تھا۔میرے خاندان نے جس امیدوارکاانتخاب کیاتھااسے میراضمیربہت پہلے ریجیکٹ کرچکاتھا۔ایک طرف بڑوں کاحکم دوسری طرف ضمیرکامعاملہ۔

واللہ اس دن میں ایک بڑے امتحان میں پھنس ہی نہیں بلکہ دھنس گیاتھا۔ووٹ پول کرنے کے لئے لائن میں لگنے سے پہلے ایک مرتبہ پھرمہرکس پرچی اورکس نام پرلگانی ہے یہ سبق مجھے ایک بارپھرپڑھایاگیا۔لیکن میراذہن،دل اوردماغ اس سبق کویادکرانے کے لئے ووٹ پول کرنے تک تیارنہ ہوئے۔ایک ہاتھ میں قومی شناختی کارڈاورووٹ کی پرچی۔دوسرے ہاتھ سے آخرتک میں تولیہ کے ذریعے مسلسل اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتارہا۔

اس وقت تویہ موبائل اورسی سی ٹی وی کیمروں کانام ونشان بھی نہیں تھاپرمعلوم نہیں کہ پھرمیں پسینہ پسینہ کیوں ہورہاتھا۔شائدپختوں کلچراورخاندانی روایات میں بڑوں کے ہرفیصلے کے سامنے سرخم اورادب واحترام کاوہ بوجھ تھاجواس وقت میرے کندھوں پرایک بلاکی طرح سوارہوکرمیری جان نہیں چھوڑرہاتھا۔آج بھی جب سوچتاہوں تووہ دن میرے لئے کسی بڑے امتحان،آزمائش اوردردوتکلیف سے ہرگزکم نہیں تھالیکن دوسری طرف اگرمیں دیکھوں تو وہی مشکل دن میرے لئے ایک ایسے تاریخ سازدن کے روپ میں سامنے آتاہے کہ جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔

کیونکہ اس دن ہی میں نے نہ صرف سابقہ روایات کا اپنے ان ہاتھوں سے جنازہ نکالا بلکہ پارٹی،گروپ بندی،برادری اورڈلے ،جنبے کے خلاف بغاوت کی پہلی اینٹ رکھ کر شخصی سیاست کوبھی اپنی طرف سے منوں مٹی تلے دفن کیا۔کس پرچی اورکس نام پرمیں نے اپنے پہلے ووٹ کی مہرلگائی یہ تومجھے یادنہیں لیکن یہ آج بھی مجھے اچھی طرح یادہے کہ جس پرچی اورجس نام کے بارے میں مجھے کئی دنوں سے لکھایا،پڑھایااورسمجھایاگیاتھااس پرچی اوراس نام پرمیں نے مہرنہیں لگائی۔

اس وقت ملک میں کینٹ الیکشن کے سلسلے میں ایک بارپھرسیاسی گہماگہمی عروج پرہے۔بدقسمتی سے میں جہاں کامکین ہوں۔یہاں بھی پچھلے کئی دنوں سے دن ہویارات ۔انتخابات انتخابات کھیلنے کایہ کھیل زوروشورسے جاری وساری ہے۔قومی سطح کی سیاست میں میری دلچسپی آج بھی برقرارہے لیکن انتخابی دنگل،بے سر،بے ذائقہ نعروں اوربے لگام لشکروں سے ہمیشہ کی طرح آج بھی حددرجے کی الرجی ہے ۔

کینٹ الیکشن میں دوتین عزت داروں کی جانب سے ،،مجھ پرمہرلگائیں،، کی التجائیں کانوں سے ٹکرائیں توپندرہ بیس سال پہلے بغاوت کے سائے میں گزراوہ وقت،وہ دن اوروہ لمحہ یادآگیا۔سوچتاہوں اس عرصے میں پرچیاں بھی بہت بدلیں،شناختی کارڈکے بہت بدلے،انتخابی نظام بھی وہ پراناوالانہ رہامگرووٹ کے سلسلے میں ہمارے رویے،طورطریقے اورعادات پھربھی نہیں بدلے۔

ہم پہلے بھی ڈلہ،جنبہ،گروہ،پارٹی اوربرادری کے نام پرووٹ مانگتے اورڈالتے رہے ہم آج بھی ڈلہ،جنبہ،گروہ،پارٹی اوربرادری کے نام پرجھولیاں پھیلاکرووٹ مانگ رہے ہیں۔ایک طرف ووٹ کوعزت دینے کی باتیں ہورہی ہیں مگردوسری طرف پورے ملک میں عزت داروں کوووٹ دینے کے لئے منت ،سماجت کرکے پاؤں پکڑے جارہے ہیں ۔اب یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ووٹ کوعزت دینی ہے یاعزت داروں کوووٹ ۔

ماناکہ الیکشن لڑنے والے سارے عزت دارہوں گے مگرمعذرت کے ساتھ ضمیرسے زیادہ عزت دارکوئی نہیں۔اس لئے میں سمجھتاہوں کہ ووٹ کوعزت دیں یانہ۔لیکن اپنے ضمیرکوعزت ضروردیں ۔اپنے بڑوں،پارٹیوں،گروہوں،لشکروں،ڈلوں،جنبوں اوربرادریوں کی پسندوناپسندکے نام پراگرآپ نے اپنے ضمیرکوبے عزت کرکے ووٹ کوعزت دے بھی دی توآپ کی اس عزت کاووٹ کوذرہ بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگابلکہ آپ کے اپنے ضمیرکی یہی بے عزتی اوردل آزاری کل کوآپ کے اسی قیمتی ووٹ کی بے عزتی بن کرسامنے آئے گی۔

بڑوں کاادب واحترام سرآنکھوں پر،پارٹیوں،گروہوں،لشکروں،ڈلوں،جنبوں اوربرادریوں کی سیاست بھی اپنی جگہ پر لیکن ووٹ ہمیشہ ضمیرکودیناچاہیئے۔جس فیصلے اوراقدام پرکل آپ کواپناضمیرملامت کرے ایسے فیصلے اوراقدام کاکیافائدہ۔۔؟یہ الیکشن بچوں کاکوئی کھیل نہیں ہوتا۔یہ کوئی شغل اورکوئی میلہ بھی نہیں۔یہ ملک وقوم کے ہرباشعوراورباختیارانسان کے ضمیرکاایک امتحان ہوتاہے۔

جولوگ ڈلہ،جنبہ،گروپ اورپارٹی کے سامنے اس امتحان میں ناکام ہوتے ہیں وہ پھرنہ صرف عمر بھرہاتھ ملتے رہتے ہیں بلکہ اپنی اس غلطی اورناسمجھی کی سزابھی ہروقت اورہرلمحے بھگتارہتاہے۔جن لوگوں نے اپنے بڑوں کے حکم اورڈلہ،جنبہ،گروپ اورپارٹی کی وجہ سے چوروں،لوٹوں،لٹیروں اورڈاکوؤں کوووٹ دیئے یانئے پاکستان کے پرانے کھلاڑیوں کو۔ آج ذرہ ان سے پوچھ لیں ۔

ان کے دلوں اورضمیرپرکیاگزررہی ہے۔۔؟یاان کے دل وضمیرکی کیاحالت ہے۔؟کل کوضمیرکے ملامت کرنے پراپنے بڑوں،پارٹی،گروہ،ڈلہ اورجنبہ کوکوسنے کی بجائے کیایہ بہترنہیں کہ انسان آج ہی کھل کروہ فیصلہ کریں اوروہ قدم اٹھائیں جس پرکم ازکم انسان کل ملامت تونہ ہو۔کینٹ الیکشن کے لئے بہت سارے عزت دارمیدان میں آچکے ہیں اوربلدیاتی انتخابات کے لئے آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔اس لئے آپ عزت داروں کوووٹ یاووٹ کوعزت دیں یانہ۔ لیکن ملک وقوم کے مفادمیں کم ازکم اپنے ضمیرکوعزت ضروردیں کیونکہ اگرآپ کاضمیرباعزت اورمطمئن ہوگاتوپھرآپ کاووٹ بھی ہمیشہ باعزت رہے گا۔ایک بات یادرکھیں ووٹ کی عزت صرف اورصرف ضمیرکی عزت میں ہے۔پسندوناپسنداور موروثی سیاست میں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :