نالائق کون ؟

منگل 23 جون 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

"ایک شعر کہنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ "میں نے ایسے ہی گفتگو جاری رکھنے کے لیے پوچھ لیا۔" پتر ، یہ شعر جو ابھی تو نے سن کر واہ واہ کی ہے، اسے لکھنے میں تریسٹھ برس لگے ہیں۔ "میں نے حیرت سے کہا،  "بابا جی، اتنی تو آپ کی عمر بھی نہیں ہے۔ ایسی کیا خاص بات ہے اس شعر میں کہ تریسٹھ برس ہی لگ گئے۔ اقبال تو چلتے پھرتے شعر کہہ جایا کرتے تھے۔

آپ کو اگر اس ایک شعر کو لکھنے میں تریسٹھ برس لگ گئے ہیں تو پھر ہم جیسوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔"
بابا جی مسکرائے، بولے ،"بیٹا، اگر لکھنے سے مراد تحریر کر دینا ہے، تو ان دو مصرعوں کو تحریر کرنے میں دو منٹ ہی لگے ہوں گے۔ مگر لکھنا فقط تحریر کر دینا نہیں ہے پتر۔ ساری زندگی کا تجربہ شامل ہوتا ہے عبارت میں۔

(جاری ہے)

"
بولے، "جب کوئی انسان بولتا ہے، تو اپنے آداب کا، اپنی نسل کا پتہ یوں ہی نہیں دیتا۔

ایک خمیر ہے، جو برسوں اس کی ذات میں گندھا گیا ہے۔ اس کی محق، اس کی رمق اس کی آواز میں، الفاظ میں، آداب میں جھلکتی ہے۔ کوئی استاد جب چالیس منٹ کا لیکچر دیتا ہے، تو اس لیکچر کی تیاری میں اسے دو گھنٹے نہیں لگے ہوتے پتر، اس کی پوری زندگی کا تجربہ شامل ہوتا ہے اس تیاری میں۔ پھر اپنی زندگی کے تجربے کی اساس، اور اکسیر نکال کر وہ چالیس منٹ میں پیش کر دیتا ہے۔

یہی حال کسی کالم نگار کا ہے۔ یہی حال کسی شاعر کا بھی ہے۔
تخلیق کا عمل کبھی بھی آناً فاناً نہیں ہوتا پتر، ایک عمر پیٹ میں پالنا پڑتا ہے، بوجھ ڈھونا پڑتا ہے، آرائش و زیبائش کرنی پڑتی ہے، پھر کہیں جا کے انسان جنم لیتے ہیں۔"
بابا جی بھی کمال کے آدمی ہیں، سادہ سی بات میں سے بھی کیسے عجیب نکتے نکال لاتے ہیں۔ ہماری ان سے ملاقات ایک دوست کے ذریعے ہوئی تھی۔

پہلا تعارف فقیر کا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ آپ ایک مسجد کے خادم ہیں۔ ملاقاتوں میں اضافہ ہوا تو معلوم پڑا کہ ہم سے بھی بہتر انگریزی بولنا جانتے ہیں۔ ایسے الفاظ بول جاتے کہ گھر آ کر لغت میں تلاش کرنے پڑتے۔ شناسائی کے اوائل کی بات ہے، ہم مری کے ایک گاؤں کی اس مسجد میں جا پہنچے تھے جہاں بابا جی بطور خادم رہا کرتے تھے۔
کیا خوبصورت موسم تھا۔

نرم سی ہوا وادی سے یوں گزر رہی تھی جیسے صحرا میں ٹھنڈے پانی کے مٹکے اٹھائے گاؤں کی لڑکیاں لہراتی ہوئی جاتی ہوں۔
گاؤں کی مسجد بھی گاؤں کی طرح ہمیشہ کھلی ہوتی ہے، تالے نہیں ڈالے جاتے۔ صبح 10 بجے کا وقت تھا۔ ہم پہنچے تو بابا جی کے پاس ایک آدمی موجود تھا۔ سلام لے کر بیٹھ گئے۔  بابا جی واپس اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، بولے، " رشید پتر، کیوں ایسے تعویذ مانگتا ہے جس سے دولت میں اضافہ ہو؟ تجھے معلوم نہیں کہ نبیﷺ نے قیامت کے روز مفلسوں کے ساتھ ہونا ہے؟ اوئے جھلّے، کیوں شکر نہیں کرتا کہ حق حلال کی کما کے گھر کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے؟" رشید میاں بضد تھے۔

خیر، بابا جی نے کوئی وظیفہ بتا ہی دیا۔ پھر ہماری طرف رُخ کیا اور انگریزی میں جھاڑ پلا دی کہ فجر پڑھی؟ ہم نے کہا آنکھ نہیں کھلی۔ پھر بے عزتی ہونے ہی والی تھی کہ شاید مہمان نوازی کے خیال سے خاموش ہو گئے۔
دوست نے اپنا مسئلہ بتایا۔ کہا کہ چھوٹا بھائی بہت نالائق ہے۔ کوئی وظیفہ بتائیں۔ بابا جی ہنس دیے۔
کہنے لگے،  "اوئے حافظ پتر (ہمارا دوست حافظ قرآن تھا)، اوئے کوئی بندہ امتحان میں فیل ہو جائے تو وہ نالائق ہوتا ہے؟ اوئے جھلّے، تیرا بھائی حرام تو نہیں کھاتا؟ جھوٹا تو نہیں ہے؟ دھوکے تو نہیں دیتا؟ اوئے پتر پھر وہ نالائق بھی نہیں ہے۔

"
پھر مجھ سے مخاطب ہوئے، "ہاں بھئی شہری بابو، کتنا پڑھے ہو؟ "میں نے عرض کی حضور 16 جماعتیں پاس ہیں۔ بولے ، "کاروبار آتا ہے؟" میں نے کہا، نہیں۔ پوچھا، " مصوری جانتے ہو؟" میں نے کہا ،نہیں۔ پوچھا، " فروٹ بیچ سکتے ہو؟" میں نے پھر سے کہا، نہیں۔ "جوتا گانٹھنا، بکریاں چرانا، دودھ دوہنا، پیوند لگانا، کوئی کام آتا ہے؟ "میں نے کہا،  نہیں جناب۔

بولے ، "پھر نالائق تم ہوئے یا اس کا بھائی، جو انگریزی نہیں جانتا پر یہ سارے کام جانتا ہے؟"
ہمارے جواب کے بغیر ہی گویا ہوئے، "پتر کوئی انگریزی نہیں جانتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نالائق ہے، ممکن ہے وہ کسی اور زبان کا ماہر ہو۔ اگر کالج کے چھ مضامین  میں کمزور ہونا نالائقی کی علامت ہے، پھر تو دنیا کا کوئی بھی عظیم آدمی لائق نہیں تھا۔

پیکاسو کو ریاضی کہاں آتی تھی؟ اقبال کوئی سائنس کا استاد تھا؟ جناح حساب میں فیل ہوتے تھے۔
ایک منٹو تھا، 1 دفعہ میٹرک اور 2 دفعہ انٹر میں اردو میں فیل ہوا تھا۔ اردو افسانہ نہیں مکمل ہوتا آج اس کے بغیر۔ پتر کاروبار کرتا ہی وہ ہے جسے یہ تعلیمی ادارے نالائق کہہ کے نکال پھینکتے ہیں۔ اس کے پاس نوکری کی امید تو ہوتی نہیں، بس پھر بازار میں تجارت ہی کر سکتا ہے، سو وہی کرتا ہے۔

پھر اگر اللہ پر یقین کے ساتھ بڑے رسک لے تو بڑے رسک میں بڑا رزق ہوتا ہے۔ پھر پڑھے لکھے نوجوان ایسے ان پڑھوں کے پاس نوکریاں مانگنے جاتے ہیں۔
کوئی ہے بڑا کاروباری پورے ملک میں، جو ان پڑھ نہ ہو؟ پتر چھ مضمون اگر پاس نہیں ہوتے، اپنے ویرے کو نالائق کہہ کر اس سے جینے کا حق مت چھین۔ اس کا بازو بن۔ اسے کہہ کوئی بات نہیں سلیم، یہ مضمون نہیں آتے نہ سہی، چل کچھ اور سیکھتے ہیں۔

آ، مشینوں کا کام سیکھتے ہیں، چھوڑ ،کمپیوٹر کی دکان ڈالتے ہیں، آ ، گائیں بھینسیں پالتے ہیں، کل کو اپنا فارم بنائیں گے۔
پتر، میرے بڑے دوست ہیں، مُجھ سے آدھی تعلیم بھی نہیں رکھتے، پر کاروبار مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اُنہیں وہ چھ مضمون نہیں آتے تھے جن میں میں تیز تھا، مجھے وہ امتحان نہیں آتے ہیں جن میں وہ قابل ہیں۔ پتر، اپنے وير کی بس تربیت پہ دھیان دے۔

سچ بولے، نقل سے بچے، حلال کا سوچے، تھوڑا کمائے، مگر ستھرا کمائے۔ عین ممکن ہے کل کو تُو اپنے بچوں کو اپنے بجائے اُن کے چاچے کی مثالیں دیا کرے۔"
میں بے سدھ سنتا سوچتا رہا، یہ بابا جی کتنے عجیب ہیں۔ خادم مسجد ہیں۔ انگریزی جانتے ہیں۔ پھر بھی اتنے سادہ ہیں۔
اور اس تعارف کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر بار کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ اور گزشتہ شب پہلی بار انہوں نے اپنا ایک شعرسنایا۔" ایک شعر کہنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ "میں نے ایسے ہی گفتگو جاری رکھنے کے لیے پوچھ لیا۔" پتر یہ شعر جو ابھی تو نے سن کر واہ واہ کی ہے، اسے لکھنے میں تریسٹھ برس لگے ہیں۔"
شعر تھا
تمام عمر ترا ہجر اٹھا رکھا ہے
وصالِ یار ترا شوق کتنا بھاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :