یہ بہادری نہیں نافرمانی ہے

اتوار 5 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

دنیا میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش دنیا بھر کی حکومتیں اپنی عوام کی حفاظت اور بھلائی کیلئے مختلف احکامات جاری کر رہی ہیں جس میں عوامی اجتماعات پر پابندی، دکانوں اور مارکیٹس کی جزوی بندش، Social Distancingیعنی آپس میں فاصلہ رکھنا، میل جول میں کمی اور بہت کچھ کیا جا رہا ہے، اسی طرح ہماری حکومت نے بھی ان تمام احکامات کے ساتھ ساتھ مساجد میں نماز کے اجتماعات کو محدود کرنے کے احکامات جاری کردئے اور ساتھ ساتھ جمعہ کے اجتماعات کو بھی محدود کرنے کی ہدایت کردی، مطمعہ ء نظر عوام الناس کو اس جان لیوا وباء سے بچانا اور عام آدمی کی صحتمندی کو یقینی بنانا تھا، مگر ہمارے ملک میں تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر مساجد نمازیوں کی آمد کو ترستی ہی رہتی ہیں جبکہ لوگ عمومی زندگی کے تمام مشغلے پورے کر رہے ہوتے ہیں سوائے نماز پڑھنے کے۔

(جاری ہے)

مگر جیسے ہی بات ہو دین کے کسی بھی مسئلے کی تو بلا کسی علم و آگہی کے ہر شخص عالم دین، مفتئی اعظم، دین اور دین کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے اور اس کا فوری حل بس ایک ہی ہے اور وہ ہے تشدد ۔ پھر خوب اسلامک کارڈ استعمال ہوتا ہے، لوگوں کے جزبات اور احساسات سے خوب خوب کھیلا جاتا ہے، موقع پرست نام نہاد دین کے ٹھیکیدار خوب نمبر بناتے ہیں اور لوگوں کو لڑاتے ہیں، غور کیجئے گا کہ کبھی لڑانے والے کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا، کیوں؟ لوگ اس بات پر کبھی بھی غور نہیں کرتے بس اندھی تقلید کرتے ہیں جس کے نتائج ہمیشہ ہی شرمندگی اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں نکلتے۔

ان دنوں بھی مساجد میں اجتماعات کو محدود کرنے پر ہلکا ہلکا عوامی ردعمل سامنے آرہا تھا مگر جمعہ آتے آتے معاملہ سنجیدہ ہوتا چلا گیا، اور عین جمعہ کی نماز کے وقت لوگوں کے ایک گروہ نے ڈیوٹی پر متعین پولیس والوں پر حملہ کر دیا اور ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ بہت شدید زد وکوب کیا لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے کار خیر سمجھ کر تشدد میں اپنا حصّہ دوڑ دوڑ کر ملاتی رہی۔

اللہ بھلا کرے اس شخص کا جس نے ان پولیس اہلکاروں کو اپنے گھر میں پناہ دیکر ان کی غصّے سے بھپرے ہو ئے لوگوں سے جان بچائی ، بلکہ ان کی مرہم پٹّی کرکے خاطر مدارات بھی کی۔ سوچیں اگر یہ نیک دل شخص موقع پر موجود نہ ہوتا تو ہجوم کا پرتشدد رویہ یقینا کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتا تھا۔
یہ کیا ہے ، من حیث القوم ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہم کیوں اس طرح ہی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ، کیا کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا؟ کیا اس ہجوم میں کسی ایک شخص کو بھی اس امر کا ادراک تھا کہ حکومتی احکامات کو ماننا ان پر لازم ہے، اور جو حکومتی اہلکار وہاں متعین ہیں وہ تو اپنے فرئض منصبی نبھا رہے ہیں ۔

کیا کوئی یہ بھی جانتا تھا کہ حکومتی اہلکار خاص کر لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کے لوگوں پر ہاتھ اٹھانا تعزیرات پاکستان کے مطابق قابل سزا جرم ہے۔ جب ملک کے تمام جید علماء کرام نے حکومتی فیصلے کی تائید بھی کر دی ہو۔ رب پھر اس قسم کی ہنگامہ آرائی کا کیا جواز بنتا ہے، مگر ہم خود کو ایک بہت ہی بہادر اور غیور قوم سمجھتے ہیں اور اپنی نام نہاد غیرت کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں پھر نتائج کی پرواہ کرنا بیغیرتی اور نامردی کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔


یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ، اسلام میں بالا دستی اقتدار اعلی کی حقیقت ہے۔ اسلامی ریاست کے ہر شہری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ارباب کار یعنی حکومت کا حکم مانیں۔ موطا میں حضرت عبادہ بن صابت  سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے سمع و طاعت یعنی (ماننے اور اطاعت کرنے) کا عہد لیا۔ قانون کی تابعداری ہر شہری کا فرض ہے۔ اس کے بغیر نہ ملک میں امن قائم رہ سکتا ہے اور نہ معاشرے کی عمارت صحیح بنیادوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔

فساد ہمیشہ قانون شکنی سے پیدا ہوتا ہے۔ اچھے شہری کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ خود قانون کی پابندی کرے بلکہ اس سے یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ قانون کے نفاذ میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔اور قانون شکنی کرنے والوں کی سرکوبی میں حکومت کا ہاتھ بٹائے گا۔ جس طرح اس شہری نے پولیس والوں کو پر تشدد ہجوم کے چنگل سے بچایا۔ مگر اس طرح کے رویئے ہمارے ہاں خال خال ہی ملتے ہیں کیوں کہ پولیس والوں کو مارنے کے لئے دوڑنے والے ان کو بچانے والوں سے تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔

یہ ہماری من جملہ معاشرتی سوچ اور طرز عمل کو آشکار کرتی ہے۔ جو نہایت مایوس کن اور حوصلہ شکن ہے۔
اگر لوگ اتنے ہی دین کے دلدادہ اور چاہنے والے ہیں تو اصل چاہت تو یہ ہے کہ سب سے پہلے صحیح طریقے پر دین سیکھا جائے، پھر دین کے تمام احکامات کی بھرپور پیروی و پابندی کی جائے۔ اور دین کے ہر ہر حکم پر عمل پیرا ہوا جائے، اور مستقل عمل کرتے رہا جائے۔

ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ دین کو باقاعدگی سے سیکھا جائے، خود بھی اور اپنے اسلامی بھائی کی بھی فکر کی جائے۔ اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر شخص عالم، مفتی، اور قاری بننے لگے مگر ہاں اتنا علم ضرور حاصل کرے کے اپنی عمومی زندگی کے مسائل کا حل دین کے تناظر میں نکال سکے، نہ کہ چھوٹے چھوٹے خانگی مسائل کیلئے عالموں اور مفتیوں کے چکر کاٹتا پھرے۔

ہاں جہاں رہنمائی درکار ہو ضرور حاصل کی جائے۔
مگر ہمار ا معاملہ من حیث القوم اس کے بالکل الٹ ہے ، میں تمام فرقے مسالک سے بالاتر ہو کر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ جو آپ کا مسلک کہتا ہے، جو آپ کا فرقہ کہتا ہے، اسی کو سنجیدگی سے سیکھیں، مجھے پکا یقین ہے کے وہی حالات میں سدھار اور معاشرے میں بدلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ مگر شدید قسم کی بد قسمتی ہے کہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا کر دین کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں اور معاشرے کے عملی سدھار میں ان کا کوئی عملی حصہ نہیں ہوتا۔

جس پھرتی، چابکدستی اور جانبازی کے جذبے سے ہم تشدد پر اتر آتے ہیں اتنی جلدی، اتنی سرعت اور آسانی سے ہم دین کے بنیادی احکامات پر عمل پیرا ہونے سے معذور نظر آتے ہیں، اور افسوس در افسوس امر یہ ہے کہ اکثریت دین پر عمل کرنے سے قاصر مگر پرتشدد ہونے میں سب سے آگے نظر آتی ہے ، اگر ہم دین کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوگی کہ پورے دین میں بلاوجہ تشدد کی کوئی گنجائش نہیں، اسی طرح اگر ہم آپ ﷺ ، صحابہء کرام رضوان اللہ کریم اجمعین کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں تو پائیں کے یہ تمام حضرات گرامی بالکل بھی پرتشدد نہ تھے، نہایت سہل طریقے پر زندگی گزارتے تھے کہ ہم سب کیلئے آج بھی عملی نمونہ ہے، یہاں تک کے دشمنوں تک کو معاف کردینا عام تھا، اب اگر ہم اسی بات کے دعویدار ہیں کہ ہم ان کے ماننے والے ہیں اور ان کی حرمت پر جان قربان کردیں گے۔

مگر ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے قاصر ہیں کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ عملی طور پر دین کا زندگی میں نہ ہونا ہے، دین کے علم کا فقدان ہے، دینی ماحول سے زیادہ دنیاوی ماحول کا زندگیوں پر اثر انداز ہونا ہے۔ لوگوں کا مادہ پرست اور دنیا دار ہونا ہے، خوف خدا کا دل میں نہ ہونا ہے، ایمان کا کمزور ہونا ہے، آخرت پر یقین کا نہ ہونا ہے۔ ان سب عوامل کے نہ ہونے سے ایک بظاہر پڑھا لکھا، ماڈرن، اور نئی تہذیب سے آراستہ معاشرہ تو موجود ہے مگر اس معاشرے میں ایک بڑا خلاء موجود ہے ، جس کے نقصانات ہم گاہے گاہے بھگت رہے ہوتے رہتے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ریت کا پہاڑ یا برف کا مجسمہ جو زراسی آہٹ یا گرمی سے اپنی ہیت ہی بدل ڈالتا ہے اور کہیں کا اور کیسی کا بلکہ اپنا بھی نہیں رہتا۔


اس صورتحال ہمیں کیا کر چاہئے، سب سے پہلے ہمیں اپنے اردگر د کے لوگو ں کو عدم تشدد پر آمادہ کرنا چاہئے، ہمیں رواداری اور بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہئے، ہمیں لوگوں کو سانس لینے کی اور پیر رکھنے کی جگہ دینا چاہئے، ہم سب کو اخلاق اور ملنساری کو معاشرے کا جز و لازم بنانے کی سعی پیہم کرتے رہنا چاہئے۔ اس کیلئے بہت قربانی دینا پڑے گی کیونکہ ہر دوسرا شہری اس نظریے اور اس طریقے سے یا تو ناآشنا ہے یا پھر اس راہ سے ہٹ چکا ہے، اسے پیار و محبت سے واپس اسی راہ پر لانا ہے، آپ ﷺ پر لوگوں نے کیا کیا مصیبتیں نہ ڈھائیں، کہیں کچرا پھینکا گیا، کہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا، کہیں پتھر مارے گئے، معاشی اور معاشرتی استحصال کیا گیا، سماجی قطع تعلق کیا گیا، مگر دنیا نے دیکھا کہ فاتح اعظم کون بنا، کس نے زمین پر نہیں دلوں پر حکمرانی کی، اور ایسی حکمرانی کے لوگ اپنی جان، اپنا مال، یہاں تک کے اپنی آل اولاد تک آپ ﷺ پر قربان کرنا عین سعادت و کامیابی سمجھتے تھے۔

اور درحقیقت ہے بھی ایسا ہی، مگر یہ سب کیسے ہوا، یہ سب حسن اخلاق کی وجہ سے ہوا ، لہذا ہمیں بھی اخلاق کے ساتھ دھیرے دھیرے معاشرے میں یہ آگہی پھیلانی ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کیلئے آخرت کو سنوارنا ہوگا، اور آخرت کے سنورنے کیلئے حقوق العباد بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ حقوق اللہ۔ اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :