انوکھے لاڈلے

جمعرات 1 جولائی 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کہتے ہیں کہ ایک کسان نے کتّا پال رکھا تھا ، جو بڑا وفا دار اور چابکدست تھا، اس کے کھیت اور مویشیوں کی جی جان سے حفاظت کرتا تھا۔ ایک دن کسان اپنے بچّے کو اکیلا گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے چلا گیا، کتا گھر پر ہی تھا، کہ ایک بھیڑیئے نے بچے پر حملہ کردیا کتے نے جان پر کھیل کر بھیڑئیے کا مقابلہ کیا اور بچے کی حفاظت کی، مالک جب واپس آیا تو دیکھا کہ کتے کے منہ پر خون لگا ہے اور وہ دروازے پر بیٹھا ہے۔

کسان سمجھا کہ کتے نے میرے بچے کو مار دیا ہے، بس یہ سوچنا تھا کہ وہ شدید غصے میں آگیا اور کتے کو مار ڈالا۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو پایا کہ بچہ تو آرام سے کھیل رہا ہے اور اس کے پاس ہی ایک بھیڑیا مرا پڑا ہے۔ کسان کو بہت افسوس ہوا کہ اس نے جلدبازی میں اپنے وفادار اور کارآمد کتے کو مار ڈالا۔

(جاری ہے)

من حیث القوم ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، ہم کر گزرنے کے بعد پچھتاتے ہیں کہ ہائے ہم نے یہ کیا کردیا۔


راہ میں ہجوم دیکھ کر رک جانا لوگوں کی فطرت بن گئی ہے، جیسے اچھا کھانا دیکھ کر لوگوں کے منہ میں پانی آجاتا ہے بالکل اسی طرح ہجوم دیکھ کر لوگوں کی رگ تجسس پھڑکنے لگتی ہے، کہ ضرور اس ہجوم میں پوشیدہ کوئی نہ کوئی تفریح کا سامان ہوگا، کیوں کہ وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں ضرور کسی پرانے موضوع سے نئی کہانی جنم لے رہی ہوگی۔ یا تو کسی ہاتھ لگے رہزن پر لوگ دل کی بھڑاس نکا ل رہے ہونگے یا کسی زمین پر پڑے رانگ سائیڈر موٹر سائیکل سوار کی مزاج پرسی کر رہے ہوں گے۔

کیوں کہ ملک میں رہزنی ، و ڈدکیتی اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی خوش نصیب ہوگا جو اس بے طلب تحفے سے محفوظ رہا ہو۔ ظاہر ہے ، بدلے کی بھاؤنا ہر گھڑی خون میں دوڑتی رہتی ہے۔ ایسے میں اگر راہ چلتے کوئی مفت کا شکار ہاتھ آجائے تو اپنا حساب برابر کرنے کا سنہری موقع کون گنوانا چاہے گا۔ اپنے دکھ کی تشفی کیلئے معاملہ جانے بغیر فوراً ہاتھ صاف کرنا اپنا فرض اولین سمجھا جاتا ہے، اور مقدور بھر دھلائی منجھائی میں حصّہ ملالیا جاتا ہے۔

ایسے میں کبھی کبھی بے قصور بھی اس چلن کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر کون سنتا ہے اس وقت تو کیفیت اوپر بیان کئے گئے کسان جیسی ہوتی ہے لہذا معاملہ نقار خانے میں طوطی کی آواز جیسا ہوکر رہ جاتا ہے۔
جلدی ہر شخص کو اتنی ہے گویا پوری کائنات کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہے اور فرصت اتنی کہ جیسے زندگی میں اب کرنے کو کچھ رہ ہی نہیں گیا ہے۔ قطار میں لگنا گویا کسر شان ہے ، کوشش یہ کی جاتی ہے کہ کسی بھی طرح قطار میں نہ لگا جائے۔

اسی طرح اگر کسی ادارے کا محافظ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کرے تو مزاج پر نہایت گراں گزرتا ہے، دل میں گمان گزرتا ہے کہ ہم شکل سے چور ڈاکو نظر آتے ہیں جو ہم سے باز پرس کر رہا ہے، مصروف ترین شاہراہوں پر رانگ سائیڈ گاڑی چلا لینا ، موٹر سائیکل سواروں کا بڑے بڑے ڈمپرز کو خاطر میں نہ لانا بھی اسی انوکھے انداز فکر کا حصہ ہے۔

گوکہ ان حرکات کے نتائج تو پچھتانے کا موقع بھی نہیں دیتے ہیں۔
 دلیر اتنے کہ اگر رسی پر چل کر بھی شارٹ کٹ مارنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اور ڈرپوک اتنے کہ اگر کوئی افواہ اڑا دے تو ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے الٹے پیر بھاگنا شروع کردیں گے۔ فٹ پاتھوں پر گاڑیاں چڑھا کر دوسری جانب کود پڑیں کے اور صحیح سمت سے رواں ٹریفک کی مٹّی پلید کر کے رکھ دیں گے۔

خدا نہ خواستہ کہیں دھماکہ ہوجائے تو دھماکے سمت ایسے دوڑیں گے جیسے فائر بریگیڈ والے آگ کی طرف دوڑتے ہیں۔ ان سر پھروں کے سامنے سرعت اور ساعت دونوں اپنے معنی کھو چکے ہیں، وقت پڑنے پر حقیقتاً اونٹ کو رکشے میں بٹھا سکتے ہیں، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی آلٹو کار کی پچھلی نشست پر دو دو گائے ٹھونس کر لے جائی جا رہی ہیں، شوخے اتنے ہیں کہ سگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر کی بجائے لکڑی کی تیلی کو موٹر سائیکل کے پیٹرول ٹینک میں ڈبو کر پلگ والی جگہ رکھ کر سلگا لیتے ہیں اور فخر سے چاروں طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے ابھی انہیں نوبل انعام دیا جائے گا ۔

لائیسنس بنانا بھی کمتری اور ہتک کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس کے بدلے جہاں بھی ٹریفک پولیس والے سے مڈبھیڑ ہوجائے اس کی ہتھیلی پر چند نوٹ رکھ کر جان چھڑا نا قابل فخر اور بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے ناجائز زمینوں کے خریدنے اور ان پر پورشنز بنانے پر لگادیں گے، لاکھوں روپے بجلی کے کنڈے پر خرچ کردیں گے مگر نہ جائز کنکشن لیں گے نہ مجاز جگہ خرید کر مکان بنائیں گے۔

ریل کا پھاٹک بند ہوجانے کے بعد آخری وقت تک پٹریوں کو پار کرتے رہیں گے۔ مگر کچھ دیر انتظار گوارہ نہیں۔ بند پھاٹک پر کھڑا ریڑھی بان بھی ایسا کہ آپ کو لگے کا کہ اگر ریل زرا دیر سے آئی تو یہ گدھے سمیت آپ پر چڑھ جائے گا۔ اس ضمن میں سب سے نایاب لوگ وہ ہیں جو کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی بجائے دوستوں یا رشتہ داروں کو فون کر کر کے پوچھتے ہیں کہ تم نے فلاں وقت مریض کو کیا کیا دیا تھا۔

اس تجربے کے دوران بیچارہ مریض قریب المرگ ہوجاتا ہے، تب اسے اسپتال لیکر پہنچتے ہیں ظاہر ہے عموماً اس تاخیر کی بھرپائی مریض اپنی جان دیکر پوری کرتا ہے، تب پھر ڈاکٹرز کی شامت آ جاتی ہے خوب خوب ہنگامہ کیا جاتا ہے ڈاکٹرز کی پٹائی کی جاتی ہے اور سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :