کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت

بدھ 5 مئی 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گذشتہ ایک سال سے پوری دنیا کورونا کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور شدید بے بسی کا شکار ہے۔ کورونا اب ایک بدترین انسانی عالمی بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ جس نے کم و بیش پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور دنیا بھر کے طبی معاونت کے اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بالخصوص غریب ممالک جو اس وباء میں مبتلا ہیں بدترین بحران کا شکار ہیں۔

لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ انفرادی کے بجائے دنیا اسے اجتماعی چیلنج کے طورپر لے، اور اس وباء سے نمٹنے کیلئے فوری اور مضبوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔ جو سب کیلئے یکساں مفید اور موجود ہو۔ کیونکہ کورونا کی وباء انسانوں کیلئے ایک عالمی خطرہ ہے لہذا اس سے نمٹنے کا بھی عالمی اجتماعی انتظام کیا جانا چاہئے۔

(جاری ہے)

دنیا کے دیگر ممالک کو ان ممالک سے سبق سیکھنا چاہئے جو کورونا کی وباء سے ابتداء میں شکار ہوئے اور انہوں نے وباء سے اپنی عوام کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کئے۔

جیسے لاک ڈاؤن، سخت سفری پابندیاں ، اور دیگر SOPs متعارف کرائے جیسے ہاتھ دھونا، سماجی فاصلہ وغیرہ وغیرہ، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ سب کو ایک چھڑی سے نہیں ہانکا جا سکتا ۔ بالخصوص متاثرہ ممالک کی عوام کی مالی حالت، وباء کی شدت اور وہاں کے سماجی و سیاسی حالات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ بہت سے ترقی پزیر ممالک میں اگر وہاں کے طرز زندگی کو مد نظر رکھیں تو سوشل ڈسٹینسنگ (سماجی فاصلہ) قریب قریب ناممکن ہے۔

لوگوں کی بڑی تعداد گھر سے کام نہیں کر سکتی۔ ساتھ ساتھ حکومت بھی اس قابل نہیں کہ وہ لوگوں کو گھر بٹھا کر کھلا سکے، یا ان کی بڑے پیمانے پر مالی امداد کرسکیں اور انہیں اس حوالے سے کچھ سکھ چین یا آسانی فراہم کر سکیں۔ پابندیوں کے ساتھ ساتھ کاروباری تسلسل کو برقرار رکھنا بھی نہایت ضروری ہے ورنہ ملک میں بیروزگاری پھیلے گی، معیشت برباد ہوگی ملک دیوالیہ اور لوگ بھوک و افلاس کا شکار ہوجائیں گے۔


کورونا کے اثرات پوری دنیا پر بہت شدید مرتب ہو رہے ہیں اور اس وباء نے دنیا کو بنیادی طورپر بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا کے 147,846,276 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 3,123,940 اموات ہوئیں اور 125,425,060 لوگ صحتیاب بھی ہوئے۔ موجودہ کورونا کی وباء 1918 کی اسپین میں پھیلی فلو کی وباء کے بعد آج تک سب سے زیادہ جان لیوا اور خطرناک وباء ہے۔
لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ صحت کے شعبہ میں عالمی سطح پر ایسے انقلابی اقدامات کئے جائیں جو بلا تفریق بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیلئے ہوں اور باہمی تعاون سب کیلئے یکساں طورپر بلا تفریق رنگ ، نسل و شہریت موجود و مہیا ہوں۔

ساتھ ساتھ مقامی افراد ی قوت کی متعلقہ شعبہ جات میں تربیت، تعمیر و ترقی پر بھی کام کیا جانا چاہئے، اس طرح نہ صرف خود انحصاری بڑھے کی بلکہ دیگر ممالک پر بوجھ بھی کم ہوگا۔ اس طرح کی وباء سے نمٹنے کیلئے انسانی زندگی کے تحفظ کا ایک مربوط و مستقل نظام وضع کیا جانا چاہئے اور اس بات کی تصدیق ہوتی رہنا چاہئے کہ یہ نظام موجود، متحرک و کارگر بھی ہو۔


یہ بات سب ہی کے علم میں آئی ہے کہ جو بھی ملک یا خطہ کسی بھی وجہ سے اس وباء کی لپیٹ میں آجاتا ہے وہاں ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ طبی سہولیات کا نظام غیر موثر ہوکر رہ جاتا ہے۔ نئے کیسز کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے نتیجتاً اموات کی تعداد بھی بہت بڑھ جاتی ہے، جو یقینا سب کیلئے قابل افسوس ہوتا ہے ، اس ضمن میں بھارت کی موجودہ صورحال کو بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔

حالانکہ بھارت خود ویکسین بنا رہا ہے، مگر آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے، طبی سہولیات کا نظام پوری طرح کارگر و کارآمد نہیں ہے، طبی معاونت کی اشیاء موجود نہیں ہیں جیسے آکسیجن موجود نہیں ہے، ان سب عوامل کا نتیجہ بڑی تعداد میں اموات کی شکل میں نکل رہا ہے، جو یقینا افسوسناک ہے۔ اس موقع پر اگر کوئی ایک عالمگیر نظام برائے معاونت انسانی بحران موجود ہوتا جو تو یقینا کچھ نہ کچھ بہتری ہو سکتی تھی۔

اور ممالک کو انفرادی طور پر مدد کا انتظار اور بدترین جانی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مگر کسی مربوط و منظم نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے انسانیت بے بسی سے راستوں پر دم توڑ رہی ہے اور راستوں پر ہی ان کی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہیں جو سراسر انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔
عالمی باہمی معاونت و رابطہ کی تنظیم سازی کے لئے ضروری ہے کے وہ تما م ناگہانی آفات جیسے کورونا ، سونامی، زلزلے، سیلاب، بارشوں کے سبب بن جانے والا شہری سیلاب Urban Flooding ، اور دیگر انسانی بحرانوں سے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دیں جو عالمی سطح پر جانی مانی جائے، ساتھ ساتھ علاقائی باہمی تعاون برائے انسانی بحران کی تنظیموں کی بھی تجویز ہونا چاہئے، جیسے کہ سارک ممالک کی تنظیم ہوا کرتی تھیں، ان تمام تنظیموں کیلئے لازمی ہونا چاہئے کہ وہ ، سرحد، رنگ، نسل اور مذہب کی تابعدار نہ ہوں بلکہ ان کا مقصد تو بلاتفریق انسانیت کی خدمت کرنا ہو۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :