ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات

جمعہ 9 اپریل 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

 اللہ تعالی نے کائنات کی کوئی بھی شہ بلاوجہ تخلیق نہیں کی ہے، اور ہر شہ کارزار حیات میں اپنا کردار بطریق احسن نبھا رہی ہے، چاہے وہ نباتات ہوں ، جمادات ہوں یا حشرات الارض، کائنات کے بہت سے سربستہ راز ہنوز نوع انسانی پر آشکار ہونا باقی ہیں۔ جنگل اور جنگلی حیات بھی ایک ایسا ہی معمہ ہے جو پوری طرح انسانوں پر اب تک ظاہر نہیں ہو سکا ہے ، مگر اس کے کچھ حصے انسانی زندگی کیلئے اپنی افادیت کی طرف مسلسل اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔

دنیا تحقیق میں لگی ہوئی ہے اور دنیا کے ماحولیاتی نظام Echosysteکی انسانی زندگی میں اہمیت و افادیت کو اجاگر بھی کر رہے ہیں مگر ہمارے ہاں ابھی اس کی نہ تو پوری طرح اگہی ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے، لہذا ہم بلا کسی کو خاطر میں لائے ماحول کے ساتھ جو کھلواڑ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں، جس کے منفی نتائج ہماری زندکیوں پر مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

(جاری ہے)


ہم پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ملک ہے، یہاں کے پہاڑ، دریا، سرسبز وادیاں، سمندر، میدان اور صحرا اپنی مثال آپ ہیں، جبکہ جنگلات کے حوالے سے پاکستان ایک قدرے بدقسمت ملک ہے۔ ہمارے ہاں جنگلات کل رقبہ کا صرف 6%ہیں، جو بہت ہی کم ہے، جنگلوں کے کم ہونے کی ایک وجہ ان علاقوں میں بارش کا نہ ہونا یا بہت کم مقدار میں ہونا ہے، جو زمین کے بنجر ہونے کا سبب بن رہا ہے، لہذا قدرتی طورپر بھی جنگلات مستقل تنزلی کا شکار ہیں، دوسری وجہ حضرت انسان کی خود غرضی اور اداروں کی اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی ہے، سالانہ ہزاروں ہیکٹرز جنگلوں کی بے دریغ کٹائی بھی اس بنجر پن اور غیر معمولی ماحولیاتی تبدیلی کا بڑا سبب ہے۔

اب جہاں جہاں جنگلات موجود ہیں وہ بھی اپنی اپنی افادیت و طاقت کھوتے جا رہے ہیں۔ غربت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کے ساتھ ساتھ ماحولیات و جنگلات سے متعلق کم علمی جنگلات کی بقاء کیلئے زبردست خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں اور کیڑا لگ جانا بھی جنگلوں کے اجڑنے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے جنگلات پر خطرات کے بادل روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔


بوجہ کم علمی لوگوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ جنگلات اور جنگلی حیات ہماری زندگی میں نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں جنگلات ہمارے ماحولیاتی نظام یا ایکو سسٹم ecosystem کا جز و لازم ہیں جو حیاتیاتی نظام کے ساتھ ساتھ غیر حیاتیاتی نظام کے ساتھ بھی نہ صرف منسلک و مربوط ہے بلکہ زبر دست اہمیت کا حامل بھی ہے اور موسموں کی تبدیلی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


ظاہر ہے جنگلی حیات کا براہ راست تعلق جنگلات سے ہے اور ہمارے ہاں جنگلات کیونکہ مشکلات کا شکار ہیں تو بلاواسطہ یا بالواسطہ جنگلی حیات بھی مشکلات کا شکار ہے، یہ بات قابل غور اور فوری توجہ کی طالب ہے کہ ہمارا رویہ جنگلی حیات کے ساتھ بہت ہی غیر سنجیدہ ، ظالمانہ اور نامناسب ہے۔ چند دھائیوں پہلے تک ہمارے ہاں اچھے خاصے اقسام کے جنگلی جانور پائے جاتے تھے جو اب ہمارے وحشی پن اور عاقبت نا اندیشی کی نظر ہوکر معدوم ہوتے ہوتے ختم ہونے کی سرحد تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔

ہمارے ہاں چرندوں میں نیل گائے، محتلف اقسام کے ہرن، خرگوش، بارہ سنگھے، درندوں میں تیندوے، برفانی تیندوے، بھیڑیا، لومڑی، ریچھ ، جنگلی کتّے اور لگڑ بھگے وغیرہ اور پرندوں کی تو بے شمار اقسام موجود تھیں جیسے تلور، ہریل طوطا، گدھ، مینا، بلبل، ہدہد ، مور، فاختہ ، عقاب، شاہین ، چیل اور کوّے وغیرہ جو اب خال خال ہی نظر آتے ہیں، جو موجود ہیں ان کے ساتھ ہمارا رویہ نہایت ہی نامناسب اور ظالمانہ ہے۔

آبی حیات اس کے علاوہ ہے، ان کو بھی ہم نے اپنی حرکتوں سے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے، پاکستان میں پایا جانے والا مشہور پرندہ تلور یا houbara bustard کا اتنا شکار کیا گیا کہ اس کی نسل ہی ختم ہونے کی حد تک پہنچ گئی، لہذا کئی سال پہلے World Wildlife Fund نے اسے خطرہ سے دوچار جانوروں کی قسم یعنی Species Endengered مان کر شکار پر پابندی لگائی تھی اس کے باوجود مستقل شکار ہو رہا ہے، اور ہر سال سیکڑوں پرندے صرف تفریح کی خاطر مار دیئے جاتے ہیں۔

اسی طرح ہم نے ہمارے قومی جانور مارخور اور کے ساتھ کیا ہے، ٹرافی اور پیسوں کیلئے اتنا شکار کیا گیا کہ اب اس کی نسل بھی معدومیت کا شکار ہے، اور اگر خاطر خواہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس کی نسل بھی دنیا سے مٹ جائے گی۔
 کیونکہ موضوع زیر بحث کچھ اور ہے لہذا اس وقت ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، گذشتہ دنوں دو تیندوے جس طرح مارے گئے وہ نہایت ہی تکلیف دہ مناظر تھے، اور ساتھ ساتھ ان کی ویڈیوز بنا کر بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانا، جیسے کوئی بہت ہی بہادری کا کارنامہ انجام دیا گیا ہو، جس پر اس ہجوم میں شامل ہر شخص کو سونے کا تمغہ دیا جانا چاہئے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آج بھی ، اس قدر نامساعد حالات کے باجود چند تیندوے موجود ہیں، جنھیں لوگ گاہے گاہے موت کے گھاٹ اتارتے رہتے ہیں۔ لوگ کم علمی کی وجہ سے ان شاندار جانوروں کو اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں اور جہاں موقع لگتا ہے ان کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے، اس حوالے میں وائلڈ لائف والے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے دفاع میں درندے کو مارا جانا قابل سزا جرم نہیں ہے، حالانکہ وہ Species Endengered میں شمار کئے جاتے ہیں مگر ان کی حالت پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں کہ مصداق ہوکر رہ گئی ہے۔

کیا ان میں سے کوئی بھی ان عوامل پر غور کرتا ہے کہ کیوں یہ جانور انسانی آبادیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ جبکہ جنگلی جانور کی یہ سرشت میں شامل ہے کہ وہ انسانوں سے فاصلہ رکھے، وہ یہ جانتے ہیں کہ انسان ہماری غذا نہیں ہیں، تو پھر کیا چیز ہے جو انہیں انسانی آبادیوں تک پہنچا رہی ہے۔ یہ معاملہ سمجھنے کیلئے ہمیں ان جانوروں کے زندگی گزارنے کے طریقے کو لازمی سمجھنا ہوگا، بلیاں فطرتاً Cat Familyعلاقائی حدود Territorial کے پابند ہوتے ہیں جو اپنے علاقوں کی جان دے کر بھی حفاظت کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا ببّر شیر ہو یا چھوٹی سی بوب کیٹ Bob Catسب اپنے اپنے رہنے کے علاقوں کو لیکر بیحد حساس ہوتے ہیں، اور علاقہ کا رقبہ territory جانور کے قد وقامت کے مطابق ہوتا ہے ، جیسے ببّر شیر کو قریب 25کلو میٹر کا علاقہ درکار ہوتا ہے، تیندوے کو بھی رہنے اور شکار کرنے کیلئے پندرہ سولہ کلومیٹر کا علاقہ درکار ہوتا ہے۔

کیونکہ یہ ان شکاری جانوروں کی عام روش ہوتی ہے کہ جب یہ کسی جگہ شکار مار لیتے ہیں تو پھر کئی ہفتے تک وہاں کا رخ نہیں کرتے، تاکہ جو باقی جانور ڈر گئے ہوں وہ دوبارہ نارمل ہو جائیں، اور یہ روزانہ شکار کرتے بھی نہیں ہیں ان کا ایک شکار قریب تین سے چار دن چلتا ہے اور آخری کھانا کھانے کے دو سے تین دن بعد یہ دوبارہ شکار کیلئے نکلتے ہیں۔ لیکن ہم انسانوں نے ان کے رہنے ، شکار کرنے اور گزرنے کی جگہوں پر قبضہ کرلیا ہے، ان کی territory سکڑ کر بہت تھوڑی سی رہ گئی ہے، ان کی غذا پہاڑی بکرے یا مارخور کی تعداد ہم انسانوں نے شکار کر کر کے خطرناک حد تک کم کردی ہے، اب وہ بیچارہ شکاری جانور بڑی بلی یا تیندوہ کیا کرے، بھوک تو کسی کو بھی کچھ بھی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، اور بھوک کی وجہ سے جب انسان انسان کو نہیں بخشتا تو یہ بیچارے جنگلی جانور کیا کریں۔

یہ مجبوراً خوراک کی تلاش میں انسانی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں، اور مارے جاتے ہیں، ہمارے ہاں کم علمی کا یہ عالم ہے کہ تیندوے کو بھی چیتا کہتے ہیں اور Tigerکو بھی چیتا کہتے ہیں اور چیتے کو بھی چیتا کہتے ہیں جبکہ یہ سب بڑی بلیّان ضرور ہیں مگر عادات و اطوار، شکل، جسامت میں ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہوتے ہیں، ہمارے اخبارات میں بھی ہر جگہ چیتا چیتا لکھا ہوتا ہے حالانکہ وہ چیتا نہیں تیندوا ہوتا ہے۔

جو بیچارہ بے بسی کی موت ماردیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں چیتا پایا ہی نہیں جاتا، ان حالات میں یہ وائلڈ لائف والوں کی ذمہ داری ہے کہ جانوروں کی ٹیگنگ Taggingکریں ان میں ٹریکنگ ڈیوائس لگائیں اور ان کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ Monitoringکریں۔ یہ جانور ہمیشہ اپنے مخصوص راستوں Tracksپر چلنے کے عادی ہوتے ہیں تو ان راستوں کو باڑ لگا کر محفوظ بنائیں، ان کی غذا مارخور اور پہاڑی بکرے کی افزائش کریں یا مصنوعی ذرائع سے ان کو غذا پہنچائیں تو یہ انسانی بستیوں کے قریب بھی نہیں آئیں گے اسطرح تیندوے بھی محفوظ رہیں گے اور انسان بھی ۔


بات اس ایک مختصر قصّے پر ختم کرتا ہوں کہ ایک صحابی  آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی چڑیا ان صحابی  کے اردگرد بے چینی سے اڑ رہی ہے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا ماجرا ہے، تو صحابی  نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ، میں نے اس چڑیا کے بچے گھونسلے سے اٹھا لئے ہیں، اسلئے یہ چڑیا بے چین ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ فوراً واپس جاؤ اور جہاں سے انہیں اٹھایا ہے وہیں رکھ دو۔ ہمارے لئے یہ ایک بہترین مثال ہے کہ جانور پالتو ہوں یا جنگلی پیار اور رحم کے وہ بھی مستحق ہوتے ہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :