مودی حکومت کا دھرا معیار

ہفتہ 24 اپریل 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گذشتہ دنوں بھارت میں ہندوؤں کا مذہبی تہوار جسے کمبھ کا میلا بھی کہا جاتا ہے ، نہایت ہی جوش و خروش سے منایا گیا، اس تہوار کی خاص بات ہندوؤں کا بڑی تعداد میں بنارس کے پاس ہری دوار، وارنسائی کے مقام پر جمع ہونا ہے اور دریائے گنگا میں ڈبکی لگانا ہے جسے وہ گنگا جل اشنان بھی کہتے ہیں، اور ان کا یہ ماننا ہے کہ کمبھ کے موقع پر گنگا جل اشنان کرنے سے زندگی کے پرانے تمام پاپ (گناہ) دھل جاتے ہیں اور انسان ایسا ہو جاتا ہے جیسے آج پیدا ہوا ہو۔

لہذا زیادہ سے زیادہ لوگوں اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور گنگا جل استھان پر جمع ہوجاتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق وہاں اس موقع پر پچاس سے ساتھ لاکھ لوگ (یاتری) جمع ہوتے ہیں بلکہ بعض تو یہ اندازہ ایک کروڑ لوگوں کے جمع ہونے تک کا لگاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس بار بھی ایسا ہی ہوا، بھارت میں بد ترین کرونا کی وباء ہونے کے باوجود مودی سرکار نے اس میلے پر کوئی پابندی عائد نہ کی اور لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی جس پر بھارتی سرکار کی خوب کھنچائی ہو رہی ہے۔

کیونکہ لوگوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا اس کے نتائج اب حقیقت بن کر لوگوں کے بڑی تعداد میں کرونا سے متاثر ہوکر مرنے کی شکل میں آرہے ہیں۔
ایک عام بھارتی اب BJPحکومت کی کم علمی اور متعصبانہ رویوں پر بولنے لگا ہے، گذشتہ دنوں ویڈیو بلاگر پراگیا مشرا نامی خاتون کا ویڈیو پیغام بہت مشہور ہوا، جس میں اس نے کھل کر بھارتی حکومت کی نالائقی اور عاقبت نا اندیشی کی کھنچائی کی انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کو تو یہ کرونا بم پکارتے ہیں اور انہیں ملک میں کرونا پھیلانے کا سبب گردانتے ہیں ، تو پھر کمبھ میلے کے شرکاء کو کیوں نیوکلئیر بم نہیں پکارا جا رہا، جبکہ تعداد میں کمبھ میلا کے لوگ کہیں زیادہ ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے خلاف تو قانون بھی حرکت میں ہے اور ایڈمنسٹریشن بھی ان کے خلاف مقدمے بنا رہی ہے مگر کمبھ میلے کے شرکاء کو ہندو ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کہا جا رہا۔ پراگیا مشرا نے یہ بھی کہا کہہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کو اس بات پر شرمندہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے مسلمانوں پر غلط الزامات لگائے تھے ۔ انہوں نے حکومتی چشم پوشی پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ میلے کے شروع ہونے سے پہلے ہی چار سو لوگ کرونا کا شکار ہوگئے تھے، اس کے باوجود لوگ خوشی خوشی اسی آلودہ پانی میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں ، انہوں اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ UPمیں کرونا کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرنے والوں کو جلانے کیلئے لکڑیاں موجود نہیں ہیں۔

علاج کیلئے اسپتال میں جگہ موجود نہیں اور لگانے کیلئے بیرونی آکسیجن موجود نہیں ہے۔
محترمہ مشرا کی بات کی تصدیق اس امرسے بھی ہو جاتی ہے کہ اس میلے میں شریک نیپال کے سابق بادشاہ اور ان کی بیگم کو جب اس میلے سے واپسی پر ٹیسٹ کیا گیا تو وہ بھی کرونا کا شکار پائے گئے ہیں۔ نیپال کے سابق شاہ گائیندرا بیر بکرم شاہ عمر 73سال اور ان کی ملکہ کومل راجیہ لکشمی دیوی شاہ عمر 70سال جب بھارت سے کمبھ میلے میں شرکت کرکے لوٹے تو کرونا کا شکار پائے گئے۔


انڈیا میں موجود ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ میلا ملک میں کرونا کے پھیلاؤ کا بد ترین سبب "Super Spreader" بنے۔ کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے اس ضمن میں جاری کردہ SOPsکو نہیں اپنایا اور غالب خیال یہ ہے کہ جب یہ کرونا سے متاثرہ لاکھوں افراد اپنے گاؤں، شہر ملک کے اندر اور باہر پہنچیں گے تو ہر طرف کرونا کے پھیلاؤ کا زبردست سبب بنیں گے۔


اس عاقبت نااندیشی کی وجہ سے کیسز ناقابل یقین حد تک بڑھ چکے ہیں اور بیشمار لوگ بہت ہی کسم پرسی کے عالم میں موت کا شکار ہو رہے ہیں کہیں ہسپتال میں بستر نہیں ہے، تو کہیں اکسیجن نہیں ہے، تو کہیں کچھ اور سہولتوں کا فقدان ہے۔ اس بار وباء کا حملہ نہایت ہی شدید ہے اور نامناسب اقدامات نے اسے اور خطرناک اور جان لیوا بنا دیا ہے۔ بھارت میں اوسطاً روزانہ وباء کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 89,800 تک پہنچ گئی ہے۔ جو بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :