اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے

پیر 21 جون 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گذشتہ جمعہ ملک کا وفاقی مالی بجٹ برائے 2021-2022پیش کیا گیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا سب نے دیکھا کہ قومی اسمبلی عملی طور پر اکھاڑے کا منظر پیش کر رہی تھی ، مرد و زن کی تفریق مٹ گئی تھی ، وہ ہلڑ بازی، وہ دھینگا مشتی، وہ گالم گلوچ اور وہ کچھ ہوا کہ لوگ انگشت بدنداں ہی رہ گئے۔ اس کے باوجود کہ عموماً لوگ جانتے ہیں کہ اسمبلیز میں کس قماش کے لوگ پائے جاتے مگر اس قدر بے ہودگی کی توقع پھر بھی نہیں کی جاسکتی تھی، اس بار تو ان لوگوں نے جہالت و نالائقی کی ساری حدود ہی پار کرلیں ، اور دنیا بھر میں ملک کی بدنامی و جگ ہنسائی کا سبب بنے۔

دنیا بھر میں اس ہڑبونگ و طوفان بدتمیزی کو تضحیک آمیز پیغامات سے تفریح کا ذریعہ بنایا گیا ۔ مگر ملک کی سالمیت، عزت اور نیک نامی کی کسے پرواہ ہے۔

(جاری ہے)


جس روز سے وفاقی مالی بجٹ کے پیش کئے جانے کی بات چلی تھی اس دن سے سیاسی حلقوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی، اپوزیشن کہہ رہی تھی کہ ہم کسی صورت اس بجٹ کو منظور نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کا کہنا تھا کہ چاہے جو بھی ہوجائے یہ بجٹ تو ہم منظور کراکر ہی رہیں گے۔

اپوزیشن اس فراق میں تھی کہ کسی طرح حکومت کا بجٹ پاس نہ ہونے پائے ، اس کے لئے چاہے جتنا اخلاقی طور پر گرنا پڑے گریں گے۔ ایک دوسرے کی خوب پگڑیاں اچھالی جا تی رہیں ، سات سات پشتوں کو رسوا اور بدنام کیا جاتا رہا ، بلا تفریق مرد و زن مارا پیٹا اور گالیاں دی جاتی رہیں۔ کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر بات ریکارڈ ہو سکتی ہے اور بعد میں دھرائی بھی جا سکتی ہے ، لہذا ایک عام آدمی کیلئے امر استعجاب یہ ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں کا کوئی کردار بھی ہوتا ہے یا نہیں کل تک جس کی شدید مخالفت کر رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنے مخالف کی ماں بہن تک کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں آج اسی کے ساتھ کھا پی رہے ہوتے ہیں، ہنس بول رہے ہوتے ہیں اور حمایت میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں، ان کا بس نہ چلے کہ اسے فرشتہ ہی ثابت کردیں، یہ کردار کی انتہائی پستی اور موقع پرستی کی بدترین مثال ہو سکتی ہے۔


مندرجہ بالا مثالیں تو محض معمولی اعمال خبیثہ ہیں ورنہ یہی سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر وہ کچھ کر سکتے ہیں جس کا میں اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں، چاہے وہ چند دن پہلے تک ان کا ہم پیالہ ہم نوالہ ہی کیوں نہ رہا ہو۔ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا ، باشعور اقوام ایسے حادثوں پر شرم سے گڑ جاتے ہیں یہاں تو کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ مذید بڑھ بڑھ کر اور چڑھ چڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جو کئی دن سے جاری ہے، کیا ملک چلانے والے ہاوئس کیا یہی حال ہوتا ہے؟ کیا وہاں صرف جہلاء کی فوج جمع کی گئی ہوتی ہے؟
جو نفسیاتی و اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے غصے پر بالکل بھی قابو نہیں ہوتا اور وہ آپے سے اتنے باہر ہو جاتے ہیں کہ مادر پدر آزاد ہوجاتے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ؟ یہ ڈھٹائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کسی رشتے کسی تعلق کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہیں، ان کا جینا مرنا ، اول و آخر صرف اور صرف سیاسی مقاصد کا حصول ہے، اور وہ بھی صرف دولت و مرتبہ اور مراعات کے حصول اور اس کے مزے اڑانے کی حد تک ، عملی سیاست سے تو یہ کوسوں دور ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے، نہ تربیت اور نہ ہی اخلاق، عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و نیک نامی سے انہیں کچھ سروکار نہیں ہوتا، یہ تو بس ہر وقت کسی بھی سیاسی دنگل کیلئے تیار رہتے ہیں، کہ اس کے ذریعے سے ان کے بہت سارے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں۔


دنیا بھر کے سیاسی منظر ناموں پر اگر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہوتا ہے ، مگر آٹے میں نمک کے برابر اور اگر کرپٹ سیاستدان قانون کی ذد میں آ جائے تو وہ چاہے کسی حیثیت کا حامل ہو سزا سے نہیں بچ سکتا۔ بلکہ اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے کوریا میں مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ایک سیاستدان کو سرعام موت کی سزا دی گئی، چین میں بھی کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، ہمارے عمومی سیاسی ماحول کے برعکس دنیا بھر میں نہایت ہی عمدہ اور باکردار سیاسدان موجود ہیں جو آج بھی دنیا بھر کے لئے مثال ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ سیاست داداگیری ، بدمعاشی، کمینگی اور ذاتی مفادات کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔

ہمارے ہاں عمومی سیاست موروثیت پر قائم ہے، جس کیلئے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے سیاستدان کی اولاد ہوناہے ۔ اس کے بعد نہ تعلیم اور نہ تربیت کسی بھی چیز کی ضرورت رہ نہیں جاتی، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ان لوگوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر پوری قوم شرم سے پانی پانی ہو رہی ہوتی ہے لیکن شرم ان کو مگر نہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :