معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات

بدھ 16 جون 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

بہت ہی مشہور ضرب المثل ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، مطلب یہی ہے کہ بولنے سے پہلے سوچ لو کہ کہیں تمہارے اپنے الفاظ تمہارے لئے شرمندگی و سبکی کا سبب تو نہ بن جائیں گے؟ یا کسی کیلئے نقصان و تکلیف کا باعث تو نہ ہوں گے؟ بہت ممکن ہے اب یہ روایت شاید کہیں نبھائی جاتی ہو ورنہ پرانے وقتوں میں لوگ اپنی زبان یعنی قول کی خاطر جان دیدیا کرتے تھے، مگر اب صبح کی بات شام کو اور شام کی بات صبح کو جھٹلا دی جاتی ہے۔

یہ ایک عام رویہ ہے او ر اسے ہمارا عمومی قومی طرز عمل بھی مانا جاسکتا ہے۔ کہ اعلی ترین عہدوں پر فائز مملکت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے اشرافیہ سے لیکر ایک عام آدمی تک سب افواہوں اور دروغ گوئی کو معیوب نہیں سمجھتے، اور نہایت غیر ذمہ داری کے ساتھ سنی سنائی بات کو بنا تصدیق آگے بڑھا دیتے ہیں، اور اگر اپنی بات سے پھر نا پڑے تو ہر گز نہ کوئی معذرت کی جاتی ہے نہ ہی شرم محسوس کی جاتی ہے بلکہ نہایت دلیری و ڈھٹائی کے ساتھ بات سے مکر بھی جاتے ہیں، اس میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے جو بلا تصدیق بہت ساری جھوٹی خبریں اور مفروضات بلا تردد پھیلاتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ اس کی تردید یا تصحیح کی جاتی ہو، جو چل گیا سو چل گیا، کون پوچھنے والا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔ ان تمام عوامل کے منفی اثرات پورے معاشرے پر بہت بری طرح پڑ رہے ہیں اور لوگ افواہ گردی اور الزام تراشی کو معیوب و برا نہیں گردانتے ہیں یہاں تک کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر صرف زبان کے چٹخارے اور مزاح کی خاطر بھی یہ مزموم حرکت کرلی جاتی ہے۔


جب سے کرونا کی وباء شروع ہوئی ہے دنیا بھر میں طرح طرح کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں، اور ہمارے ہاں بھی بلا تصدیق ان تمام افواہوں کو فوری طور پر پھیلا یا جا رہا ہے، کرونا کے جان لیوا ہونے سے بھلا کون انکاری ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے بارے میں افواہوں کے تناظر میں ہمارا عمومی معاشرتی رویہ بہت ہی غیر سنجیدہ اور نا مناسب ہے۔ اگر کرونا کوئی افواہ یا عام نزلہ زکام ہوتا تو ہمارے ارد گرد لوگ جان سے نہ جا رہے ہوتے، چند دنوں سے WHOکے حوالے سے یہ جھوٹی خبر گرم ہے کہ کرونا کوئی متعدی اور جان لیوا وباء نہیں ہے بلکہ یہ عام نزلہ زکام ہی کی ایک قسم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گی۔

بس اس خبر کا مارکیٹ میں آنا تھا ایسا لگتا ہے جیسے ہر شخص نے اسے پھیلانا خود پر عین فرض کرلیا ہو۔ جیسے ہی آپ اپنے سوشل میڈیا کے کسی بھی INBOXپر جائیں کئی کئی لوگوں نے یہ پیغام آپ کو بطور تبرّک بھیجا ہوا ہوتا ہے۔
کسی نے بھی تصدیق کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی ، کیونکہ اگر تصدیق کرتے تو یہ بھی پتا چلتا کہ کسی بھی بات کو بلا تصدیق آگے کہہ دینے والے کے جھوٹا ہونے میں کوئی گمان نہیں کیا جاسکتا۔

اب آجاتے ہیں اس خبر کے زبان زد عام ہونے کے عمومی نقصانات کی جانب، کرونا سے متعلق احتیاطی بندشوں سے ہر کوئی پریشان بھی ہے اور بے آرام بھی، ایسے میں اس طرح کی خبروں کا گردش کرنا لوگوں کو گویا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ لوگ بڑی تعداد میں آج بھی احتیاط کرنا گوارہ نہیں کررہے ہیں یہ خبر گویا ان کیلئے ایک مژدہء جانفزا کی مانند ہوگا اور رہی سہی کسر بھی پوری کرلی جائے گی۔

مگر سوشل گروپ پر ایک دوست نے کرونا سے متعلق اس افواہ پر بہت عمدہ سوال کیا جو میں آپ کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہوں گا کہ اگر یہ ایک عام اور بے ضرر سا نزلہ زکام ہے تو لوگ اس میں مبتلا ہوکر مر کیوں رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ میرے والد صاحب اس کا شکار ہوکر اس جہان فانی سے چلے گئے، اور اب تو ہم سب کے اردگر ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن کے مشاہدے سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ افواہ اور سچائی میں بہت بڑا فرق ہے، سچائی نہایت بھیانک اور خطرناک ہے کہ وہ یقینا جان لیوا ہے اور افواہ موت کے منہ میں دھکیلنے والے فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کیونکہ Androidموبائل کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا استعمال کررہی ہے، مگر کمال حیرت امر یہ ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ صرف انگریزی میں پیغام دیکھ کر اسے سچ مان لیتے ہیں، اور بلا تصدیق اسے آگے بڑھا دینے کو عین صدقہء جاریہ سمجھتے ہیں، جو نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ فعل ہے، اسطرح بہت ممکن ہے کہ کئی لوگ جو اس وبا سے بچ سکتے تھے اس کا شکار ہوجائیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

ساتھ ساتھ جو بھی فلاحی اقدامات حکومت یا دیگر اداروں کی جانب سے کئے جا رہے ہوں وہ غیر موئثر ہوکر رہ جائیں اور نتیجہ ہر دو صورت میں جان لیوا اور دکھ دینے والا نقصان ہی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ من حیث القوم ہم سب نہایت ذمہ دارانہ رویوں کا مظاہرہ کریں اور کوئی بھی پیغام جس کا تعلق بلاواسطہ یا بل واسطہ انسانی جان کے نقصان سے ہو، تصدیق ہونے کے باوجود پھیلانے سے گریز کیا جائے۔

کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت مانیٹر کرے اور ایسے تمام صارفین کو سزا دے جو اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوں، مگر یقینا ہم ایسا نہیں چاہیں گے، اتنا شعور تو سب ہی میں ہوگا کہ وہ ایک بہت ہی عام فہم بات کو سمجھ کر اس کی افادیت یا نقصان کا اندازہ لگا سکیں اور اسے اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر فیصلہ کریں کہ افواہ کا ساتھ دیکر لوگوں کو نقصان پہنچانا ہے یا سچ کے ساتھ رہ کر خلق خدا کو فائدہ پہنچانا ہے۔ کہتے ہیں جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :