معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات

بدھ 18 اگست 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

صدیوں سے آج تک دنیا بھر میں اچھائی اور برائی کا بنیادی نظریہ مذہب، رنگ، نسل خطہ سے ماورا ایک ہی ہے ، امریکہ کی چمکتی دمکتی شہری زندگی سے لیکر افریقہ کے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ دیہاتوں تک اچھائی کا بنیادی تصور یکساں ہے، جیسے سچ بولنا، انصاف کرنا، بلاتفریق جانداروں کو تکلیف نہ دینا یا تکلیف میں مبتلا جانداروں کی مدد کرنا ، خو ش لباسی، یا پانی پلانا دنیا بھر میں عالمی نیکی تصور کی جاتی ہے۔

اسی طرح برائی کا تصور بھی عالمی طور پر یکساں ہے جیسے بے حیائی، بے لباسی، چوری، جھوٹ، قتل اور ناانصافی وغیرہ وغیرہ۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف معاشروں میں اخلاقی انحطاط کا عمل بھی ہوتا رہا ہے، کچھ جگہوں پر انصاف، برابری اور Justice among gendersکے نام پر بے حیائی اور بداخلاقی کو بھی پروان چڑھایا گیا، جس میں سب سے بڑا کردار نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مادر پدر آزاد ی کی سوچ کے حامل لبرل لوگوں نے ادا کیا۔

(جاری ہے)

جس کی بنیادی وجہ غیر ضروری آزاد خیالی اور بے حیائی کا پروردہ ہونا ہے نہ کہ انسان دوست یا قانون فطرت کا پابند و معاون ہونا۔ اس آگ کو بھڑکانے میں زیادہ تر وہ سطحی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں جو تہذیب، تمدن اخلاق و کردار کو محض وقت کا زیاں یا اقدار کی فرسودگی کا مظہر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت ان کی سوچ کے برعکس ہے۔
تمام تر ترقی کے باوجود مغرب کی بگڑتی اخلاقی قدروں سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

مادر پدر آزادی اس قدر عروج پر ہے کہ لوگ اب جنسی طلب جب ہو جہاں ہو پوری کرلیتے ہیں، جو بدترین بے حیائی ہے، اور انہیں جانوروں سے بھی کم تر بنا دیتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی چاہے کتنا ہی ماڈرن، آزاد خیال، لبرل اور مغربی تہذیب کا پروردہ کیوں نہ ہو انکاری نہیں ہوسکتا کہ یہ ایک بدترین اخلاقی گراوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نام نہاد آزادی اظہار سے لیکر حقوق آزادی نسواں تک سب ایک گورکھ دھندے کے سوا کچھ بھی نہیں جن کے منفی نتائج مغرب کی معاشرتی زندگی پر بہت بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، اگر کوئی حقیقت سے انحراف کرے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حقیقت بدل جائے گی، ابھی چند دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ برطانیہ میں ایک گیارہ سالہ بچی نے بچے کو جنم دیا، جو برطانیہ بہادر کی اب تک کی سب سے کم عمر ترین ماں ہے، کمال حیرت امر یہ ہے کہ اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ وہ اس پورے معاملے سے ناواقف تھے۔

مگر کیا یہ امر کمال حیرت نہیں کہ دنیا کو نوعمری کی شادی سے روکنے والوں کے ہاں اب نوعمر ترین بچیاں ماں بن رہی ہیں ، ظاہر ہے وہ اس پورے گھناؤنے مراحل سے گزری ہوگی تب ہی تو وہ بن بیاہی ماں بن سکی مگر جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو وہ سیاہ و سفید کا فرق کھو بیٹھتا ہے۔ یہی حال ان مغربی معاشروں کا ہے۔ پہلے وہاں یہ اصول تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد فیصلہ کرنے یا رہنے بسنے کی آزادی ہوتی تھی ، مگر تلخ حقیقت کچھ اور ہی کہتی ہے، کہ وہاں ہائی اسکول تک آتے آتے بہت سی بچیاں اپنا کنوارہ پن اردگرد موجود ہوس پرستوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھتی ہیں، کالج تک آتے آتے وہ کئی کئی بار اسقاط حمل سے گزر چکی ہوتی ہیں، اس کے بعد کا مرحلہ اس سے بھی زیادہ گھناؤنا اور بدبودار ہے کہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ساتھ رہنا شروع کر دیتے ہیں جسے وہ لونگ ان ریلیشنشپ Living in relationshipکہتے ہیں، اس کا فائدہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، مگر ہوتا عموماً اس کے برعکس ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہوتا وہی ہے جو قدرت کے قانون کے مطابق ہوتا ہے لہذا اس دوران ان کے بغیر نکاح کے کئی کئی بچے ہوجاتے ہیں، اور لڑکی کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان پہنچ چکی ہوتی ہے، ظالم معاشرہ اس کی ساری جوانی، رعنائی اور خوبصورتی چھین چکا ہوتا ہے، تب وہ بوائے فرینڈ عموماً شادی سے انکار کردیتا ہے، تو وہ لڑکی جو آزاد خیالی کی پروردہ، اور لبرل سوچ کی حامل ہوتی ہے روڈ پر آجاتی ہے اور کبھی کبھی جسم فروشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

یہ ہے Living in relationshipکا نتیجہ یا فائدہ، یہ ایک بہت ہی عام اور مغربی معاشرے میں جگہ جگہ پائی جانے والی بدبودار کہانی ہے، جو عورت کی بے قدری اور وہاں Male Domination کو بطریق احسن اجاگر کرتی ہے، ساتھ ساتھ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ اور بگاڑ کے بنیادی اسباب کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر اندھی تقلید کے نقصانات کی بھر پائی آسانی سے نہیں ہوپاتی۔


 سو ان کا معاشرہ اس گندگی کی دلدل میں مسلسل گرتا اور دھنستا جا رہا ہے۔ جنسی آزادی کا قانون انہیں مذید اس گندگی میں دھکیلنے کا سبب ہے جس کے مطابق ، جنسی آزادی قانونی طورپر یہ اجازت دیتی ہے کہ جس کے ساتھ چاہیں جب چاہیں جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں۔
اس کے بعد نمبر آتا ہے ہم جنس پرستی کا یا ہجڑوں کے حقوق کی حفاظت کا، جس کے مطابق دو عورتیں یا دو آدمی آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔

یہ بات تو سوچنے پر ہی مضحکہ خیز لگتی ہے، مگر وہ نالائقی ہی کیا جسے مغرب گود نہ لے لیتا ہو۔ ہر ناجائز عمل کو جائز بنا کر معاشرے کے اقدار کا بد صورت حصہ بنا دینا ان لوگوں کا کمال فن ہے۔ لہذا اب ہم جنس شادیوں کی بھی باقاعدہ وہی قانونی حیثیت ہے جو عام مرد و زن کے جائز نکاح کی ۔ مگر اس کے معاشرے کے عمومی رویوں پر پڑنے والے منفی اثرات پرواہ کی کسی کو بھی نہیں ہے۔

حالانکہ نتائج سب ہی بھگت رہے ہیں۔ Gay Pride or LGBTکو زبردست پزیرائی مل رہی ہے اور وہ شخصی آزادی کے نام پر خوب بے حیائی کو عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ سب کچھ غیر فطری اور غیر اخلاقی ہے، ان لوگوں کے یہاں بھی جن کے ہاں ان تمام اعمال خبیثہ کو قانونی حیثیت حاصل ہے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یعنی زنا اور ہم جنس پرستی دنیا بھر میں انتہائی حقارت کی نگاہ سے کئے جانے والے گناہ ہیں جن کو محض چند بکاؤ بد ضمیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔


ہم اس بحث میں شاید کبھی بھی نہ پڑتے کہ یہ موضوع اس قابل ہی نہیں کہ اس پر بات کی جائے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا تھا یا ہو رہا سے ہمیں کچھ مطلب نہیں مگر یہ سب کچھ بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گذشتہ دنوں پہ در پہ ایسے واقعات رونما ہوئے جو چشم کشاء بھی تھے اور تکلیف دہ بھی، ہمارے جیسے مسلمان اکثریتی ملک میں Living in relationshipمیں رہنا گویا مستقل زنا کا مرتکب ہونا ہے جس کی باقاعدہ عدالتی سزا ہے مگر یہ ناسور ہمارے ہاں بھی پروان چڑھ رہا ہے جس کے شواہد ملنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس کا اندازہ گذشتہ دنوں اسلام آباد ہونے والے لڑکی کے بہیمانہ قتل سے ہوا ، تحقیق کرنے پر علم میں آیا کہ تعداد گوکہ کم ہے مگر یہ برائی ہمارے ہاں آہستہ آہستہ قدم جما رہی ہے، جس کی گواہی ایک ویب سائٹ پر ایک پاکستانی نوجوان کے کمنٹس نے کردی کہ وہ ایسے کئی جوڑوں کو جانتا ہے جو Living in relationshipمیں ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی افسوسناک اور تکلیف دہ انکشاف ہے، یعنی لوگ اب پاکستان میں بھی زنا کو جائز سمجھنے لگے ہیں، ابھی یہ غلغلہ تھما بھی نہ تھا کہ ایک گھر پر Gay Prideکا جھنڈا لہرا دیا گیا، جو کہ کھلم کھلا اسلامی اقدار اور معاشرے کے عمومی رویوں سے بغاوت بلکہ بے حیائی کی جانب ایک انتہائی قدم کہا جاسکتا ہے۔

جو پچھلے عمل سے بھی گھناؤنا اور برا ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ لوگ مغرب کی اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ جہالت اور کم علمی ہے، بظاہر تعلیم یافتہ مگر تربیت کے اعتبار سے بالکل پھکڑ لوگ فورا ہی آلہ کار بن جاتے ہیں پھر جب وہ ایک بار خود کو بیچ دیتے ہیں تو اس کے بعد ان پر ہر منزل آسان ہوجاتی ہے۔ لہذا معاشرے میں بدترین اور گھناؤنے جرائم پنپنے لگتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں روز بچے بچوں سے زیادتی یا لڑکیوں اور عورتوں کی عصمت دری اور قتل کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ پڑوسی ملک بھی ہے جہاں اس قسم کی تمام بدکاریوں کو فوراً ہی قانونی حیثیت مل جاتی ہے، اور ہمارے لوگ انہیں دیکھ کر متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ حالانکہ غور کریں تو پائیں گے کہ وہ ایک جانور گائے کو ماں مانتے ہیں اس کا پیشاب پیتے ہیں اور اس کا گوبر جسم پر تبرک بطور ملتے ہیں مگر اسی کا دودھ نالی میں بہا دیتے ہیں، ہیں نہ کمال کے لوگ تو ایسے لوگوں کی مماثلت یا پیروی نالائقی کی جانب ہی لیکر جائے گی نہ کہ کامیابی و فلاح کی جانب۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکیں اور اندھی تقلید کے بجائے علم و تہذیب کی روشنی میں اپنا راستہ چن سکیں ۔ جہالت صرف یہی نہیں کہ کوئی اسکول یا مدرسہ نہ گیا ہو، بلکہ اپنے اعمال و افعال کے اچھے یا برے ہونے کا ادراک نہ ہونا بھی جہالت ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :