کیا واقعی عورتوں کو اپنی قدر و منزلت کا ادراک نہیں؟

ہفتہ 20 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

یوں تو اللہ کی ہر تخلیق لاجواب اور بے مثال ہے، ایک چھوٹی سی تتلی سے لیکر سو فٹ لمبی نیلی وھیل تک ہر ایک اپنی مثال آپ ہے، اور اگر تذکرہ عورت کا ہو تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ کائنات کی تمام تخلیقات کے حسن کا نچوڑ ہے ۔ عورت ہر دور میں اہم ترین معاشرتی جز رہی ہے۔ معاشرتی تعمیر ہو یا تہذیب و تمدن کی ترویج عورت اس کا مرکز و منبہ رہی ہے۔

اسی لئے ماں کی گود کو اولاد کی پہلی درسگاہ مانا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں عورتوں کو مختلف ادوار میں معاشرتی اعتبار سے الگ الگ مراتب حاصل رہے ہیں۔ جیسے یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران عورتیں پوری طرح سے اپنے خاوند پر انحصار کیا کرتی تھیں اور شہری قانون کے مطابق کسی معاہدے پر دستخط کرنے کی مجاز نہ تھیں۔ نہ گواہی دے سکتی تھیں اور نہ ہی قرضہ لے سکتی تھیں۔

(جاری ہے)

غرض یہ کہ سماجی طور پر نہایت کمتر حیثیت کا شکار تھیں ان کا کردار بس گھر سنبھالنا، بچّے پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا ہوتا تھا۔ جبکہ فوجداری قوانین سارے کے سارے ان پر لاگو ہوتے تھے ۔ اور آپ شاید یہ سن کر حیران رہ جائیں کہ یہ قانون اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یورپ بھر میں بالخصوص روم وغیرہ میں رائج تھے۔ اور اگر کوئی عورت کسی گھناؤنے جرم میں ملوث پائی جاتی تھی تو اسے وہ تمام اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں جو کسی مرد کو دی جاسکتی تھیں۔

یہ ہے تہذیب یافتہ یورپ کا اصل چہرہ اور وہاں عورت کو دی جانے والی عزت و تکریم، جبکہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جس کے متعلق یورپ گمان تک نہیں کرسکتا تھا۔ عورت کو ہر لحاظ سے تحفظ دیا معاشرے کا ایک اہم اور باعزت رکن بنایا گیا، اور منوایا گیا، اس معاشرے میں جہاں بیٹیوں کو زندہ دفنادیا جاتا تھا۔ عورت کے حقوق دلوائے اور محترم و معتبر منوائی گئی ، آج بھی مغرب میں عورتیں مرد سے زیادہ محنت کرتی ہیں اور گھر بھی چلاتی ہیں جبکہ مشرق میں عمومی طور پر عورت کی ذمہ داری گھر چلانا اور بچوں کی پرورش کرنا ہوتا ہے، اور اگر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہوں تو بھی کوشش کی جاتی ہے کہ اخلاقی اعتبار سے عمدہ ماحول فراہم کیا جا ئے، ایک طویل عرصے سے ہمارے معاشرے میں بھی خواتین ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں کر رہی ہیں، تدریس کے شعبہ سے لیکر لڑاکا جہاز کے پائیلٹ تک بن رہی ہیں، ڈاکٹر، انجینئر کمپیوٹر پروفیشنل آپ صرف نام لیجئے ہماری خواتین ان شعبہ میں کامیابی سے ذمہ داریاں نبھاتی نظر آجائیں گی۔

ان چشم کشاء حقائق کے باوجود ہمارے ہاں مغرب کی اندھی تقلید کو عورت کی کامیابی کی کلید سمجھ لیا گیا ہے ، اور بنا تحقیق و تجربہ کے بس مغرب کی تائید کو خود پر لازم کرلیا گیا ہے جس کے مضمرات پوری کی پوری عورت برادری پر مرتب ہو رہے ہیں۔
 اور جس کے نقصانات خود عورتوں ہی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ امر استعجاب یہ ہے کہ جن کی تقلید کی جارہی ہے وہ خود اخلاقی طور پر اس حد تک نہیں گرتے، جبکہ ہمارے یہاں گندے گندے نعرے، انتہائی فحش پلے کارڈ جن بر جلی حروف میں انتہائی فحش پیغامات اور تصاویر ہوتی ہیں کثیر تعداد میں سڑکوں پر کھلے عام موجود ہوتے ہیں، نہ حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے اور نہ ہی کوئی اور نام نہاد حقوق کی علمبردار تنظیم کوئی قدم اٹھاتی ہے، قابل غور امر یہ ہے کہ، برائی کائنات میں کہیں بھی چلے جائیں برائی ہی رہے گی اور اچھائی کو برائی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

لہذا یہ مادر پدر آزادی گالم گلوچ، فحش کلامی اور گندے اشاروں کا آزادانہ مظاہرہ نہ ہماری تہذیب سے مماثلت رکھتا ہے نہ ہمارے عمومی معاشرتی رویوں سے میل کھاتا ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ ان گھٹیا ہتھکنڈوں سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا تو پھر آخر یہ سب کچھ کیا ہے، گذشتہ دنوں ہونے والے عورت مارچ نے تو ساری حدیں ہی پار کرلیں ۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے کی ماڈرن سے ماڈرن لڑکیاں بھی وہ کرنے کا سوچ نہیں سکتی تھیں جو گذشتہ دنوں ہمارے اردگر د کی عام عورتیں کر گزریں۔

جو چیز سب سے زیادہ قابل اعتراض تھی وہ یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شان میں مسلسل گستاخی ہوتی رہی ۔ یہ لوگ اپنے کپڑے اتار کر بھی اگر روڈ پر ناچتے تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا اللہ اور رسولﷺ کا نام لے لے کر غلیظ ترین نعرے لگائے گئے۔ آخر کار یہ سب کیا ہے، کس چیز سے بغاوت ہے؟ کیا واقعی یہ ترقی و آزادی کی جانب سفر کا طریقہ ہے، یا کچھ اور، لگتا کچھ یوں ہے کہ اسلام دشمن عناصر ایک مخصوص طبقے کو مراعات کا لالچ دیکر انہیں اپنے آلہء کار کے طورپر استعمال کر رہے ہیں۔

دنیا بھر میں ان مظاہروں کا مذاق اڑایا گیا، بے شمار مغربی ممالک کی عورتوں نے اس بیہودگی کو دیکھ کر کہا کہ یہ محض نالائقی کے سوا کچھ بھی نہیں مشرق کی عورت بالخصوص مسلمان عورت آج بھی مغرب کی عورت سے بہتر اور زیادہ عزت والی زندگی گزار رہی ہے۔ تو انہیں کیا چاہئے ، کیا مادر پدر آزادی چاہئے، برہنگی چاہئے یا عورت ہونے کی تکریم چاہئے، اگر نام نہاد آزادی چاہئے تو اس کے ساتھ عزت کا کوئی معاملہ نہیں بن سکتا، کیونکہ اس طریقے سے منسلک تمام کے تمام اقدامات بے حیائی و بے غیرتی پر مبنی ہیں تو عزت و تکریم اس طریقے سے تو نہیں مل سکتی۔

پوری کائنات میں حیا وہ واحد باکمال شہ ہے جس کے پردے میں ہر پاک و برتر شہ پوشیدہ ہے۔ حیا ہی سے عزت و تکریم کی ابتداء ہے ، تو من حیث الاقوم یہ لمحہء فکریہ ہے، اور ہم سب کی ذمہ داری بھی کہ سب مل کر اس کے سد باب کیلئے کوشش کریں اغیار کی سازشوں کو بے نقاب کریں اور ان کے مذموم مقاصد کو پورا نہ ہونے دیں، یکیونکہ آج کسی اور کی بیٹی ان کا شکار ہوئی ہے کل ہماری بہن بیٹی بھی ہوسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :