
کیا واقعی عورتوں کو اپنی قدر و منزلت کا ادراک نہیں؟
ہفتہ 20 مارچ 2021

زعیم ارشد
دنیا بھر میں عورتوں کو مختلف ادوار میں معاشرتی اعتبار سے الگ الگ مراتب حاصل رہے ہیں۔ جیسے یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران عورتیں پوری طرح سے اپنے خاوند پر انحصار کیا کرتی تھیں اور شہری قانون کے مطابق کسی معاہدے پر دستخط کرنے کی مجاز نہ تھیں۔ نہ گواہی دے سکتی تھیں اور نہ ہی قرضہ لے سکتی تھیں۔
(جاری ہے)
اور جس کے نقصانات خود عورتوں ہی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ امر استعجاب یہ ہے کہ جن کی تقلید کی جارہی ہے وہ خود اخلاقی طور پر اس حد تک نہیں گرتے، جبکہ ہمارے یہاں گندے گندے نعرے، انتہائی فحش پلے کارڈ جن بر جلی حروف میں انتہائی فحش پیغامات اور تصاویر ہوتی ہیں کثیر تعداد میں سڑکوں پر کھلے عام موجود ہوتے ہیں، نہ حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے اور نہ ہی کوئی اور نام نہاد حقوق کی علمبردار تنظیم کوئی قدم اٹھاتی ہے، قابل غور امر یہ ہے کہ، برائی کائنات میں کہیں بھی چلے جائیں برائی ہی رہے گی اور اچھائی کو برائی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ لہذا یہ مادر پدر آزادی گالم گلوچ، فحش کلامی اور گندے اشاروں کا آزادانہ مظاہرہ نہ ہماری تہذیب سے مماثلت رکھتا ہے نہ ہمارے عمومی معاشرتی رویوں سے میل کھاتا ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ ان گھٹیا ہتھکنڈوں سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا تو پھر آخر یہ سب کچھ کیا ہے، گذشتہ دنوں ہونے والے عورت مارچ نے تو ساری حدیں ہی پار کرلیں ۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے کی ماڈرن سے ماڈرن لڑکیاں بھی وہ کرنے کا سوچ نہیں سکتی تھیں جو گذشتہ دنوں ہمارے اردگر د کی عام عورتیں کر گزریں۔ جو چیز سب سے زیادہ قابل اعتراض تھی وہ یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شان میں مسلسل گستاخی ہوتی رہی ۔ یہ لوگ اپنے کپڑے اتار کر بھی اگر روڈ پر ناچتے تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا اللہ اور رسولﷺ کا نام لے لے کر غلیظ ترین نعرے لگائے گئے۔ آخر کار یہ سب کیا ہے، کس چیز سے بغاوت ہے؟ کیا واقعی یہ ترقی و آزادی کی جانب سفر کا طریقہ ہے، یا کچھ اور، لگتا کچھ یوں ہے کہ اسلام دشمن عناصر ایک مخصوص طبقے کو مراعات کا لالچ دیکر انہیں اپنے آلہء کار کے طورپر استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان مظاہروں کا مذاق اڑایا گیا، بے شمار مغربی ممالک کی عورتوں نے اس بیہودگی کو دیکھ کر کہا کہ یہ محض نالائقی کے سوا کچھ بھی نہیں مشرق کی عورت بالخصوص مسلمان عورت آج بھی مغرب کی عورت سے بہتر اور زیادہ عزت والی زندگی گزار رہی ہے۔ تو انہیں کیا چاہئے ، کیا مادر پدر آزادی چاہئے، برہنگی چاہئے یا عورت ہونے کی تکریم چاہئے، اگر نام نہاد آزادی چاہئے تو اس کے ساتھ عزت کا کوئی معاملہ نہیں بن سکتا، کیونکہ اس طریقے سے منسلک تمام کے تمام اقدامات بے حیائی و بے غیرتی پر مبنی ہیں تو عزت و تکریم اس طریقے سے تو نہیں مل سکتی۔ پوری کائنات میں حیا وہ واحد باکمال شہ ہے جس کے پردے میں ہر پاک و برتر شہ پوشیدہ ہے۔ حیا ہی سے عزت و تکریم کی ابتداء ہے ، تو من حیث الاقوم یہ لمحہء فکریہ ہے، اور ہم سب کی ذمہ داری بھی کہ سب مل کر اس کے سد باب کیلئے کوشش کریں اغیار کی سازشوں کو بے نقاب کریں اور ان کے مذموم مقاصد کو پورا نہ ہونے دیں، یکیونکہ آج کسی اور کی بیٹی ان کا شکار ہوئی ہے کل ہماری بہن بیٹی بھی ہوسکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.