چال

پیر 22 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کبکبو نے تیری چال جو دیکھی ٹھٹھک گئے
دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے
چال ایک کثیرالمعنی اور کثیر الاستعمال لفظ ہے جو عمومی اور خصوصی معنوں میں ہر طرح سے رائج اور مستعمل ہے۔ جیسے میر کا مندرجہ بالا شعر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ چال چاہے ستاروں کی ہو یا محبوب کی ، سیاست دانوں کی ہو یا چالباز نوسر بازوں کی، بہرحال ایک نہایت ہی مقبول صیغہ ہے جسے لوگ خوشی اور غم ، دونوں معنوں اور مواقع پر بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔


لفظ چال ستاروں کی چال سے لیکر محبوب کی سبک خرامی تک سب کے مقاصد اور مطالب کی بطریق احسن ترجمانی کرتا ہے۔ کنواروں کی زندگی پر بھی اس کے اثرات سورج گرہن کی طرح کے ہوتے ہیں کے شادی سے پہلے ان کے چال چلن کی خوب تحقیق کی جاتی ہے اور بعد میں خود ان کی چال خراب ہوجاتی ہے۔

(جاری ہے)


چال دراصل حرکت کا مترادف ہے، اور حرکت زندگی کی علامت ہے، لہذا جہاں کہیں بھی چال چلی جا رہی ہو زندگی اپنے ایک نئے رخ کے ساتھ وہاں ضرور جلوہ گر ہو رہی ہوتی ہے۔


بات باد صرصر کے چلنے کی ہو یا شطرنج کی چال کی معاملہ گھوم پھر کر فریق ثانی کے متاثر ہونے پر منتج ہوجاتا ہے۔ اور اگر بات سیاسی چالوں کی ہو تو پھر کوئی اصول کوئی ضابطہ کارگر رہ نہیں جاتا، بلکہ جس کی لاٹھی اس کی چال پر جاکر ہی بات ٹھہرتی ہے۔
سیاسی چالیں عام آدمی کی زندگی میں حیرتوں اور حسرتوں کا بڑا سبب ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کی ہر چال نئی چال ہوتی ہے اور پچھلی چالوں کا اپگریڈیڈ ورژن Upgraded Version) (ہوتی ہے جو عام لوگوں کے ویژن کو دھندلانے اور دماغ کو ماؤف کرنے یا چکرانے کا سبب بنتی ہے۔

مگر بعض لوگ حیرت انگیز طور پر اس بات کے بھی شائق ہوتے ہیں کہ دیکھیں اب یہ کونسی نئی سیاسی چال چلے گا۔ اور اس چال نے ملک کے سیاست نامے میں کون کون سے گل کھلانے ہیں کیا کیا باب رقم کرنے ہیں ۔ ایسے لوگ خطروں کے کھلاڑی کہلائے جاتے ہیں۔
گزرے وقتوں میں، چالباز ٹھگ لوگوں کا مال فریب دیکر لوٹ لیا کرتے تھے، جنہیں عرف عام میں نوسر باز بھی کہا جاتا تھا۔

اب وہ سب سیاسی مداریوں کے مرید ہیں، اور سیاست دانوں سے فن چالبازی کی باقاعدہ تربیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں مگر اتنے کامیاب نہیں ہوپاتے جتنا کہ ایک تیسرے درجے کا سیاستدان۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی نرسریاں ہیں جو ان خون چوسنے والے فریب کاروں کی پرورش اور آبیاری کرتی ہیں، جو انہیں اپنی چالوں میں اتنا پختہ اور زیرک بنا دیتی ہیں کہ پھر ان کا ثانی ڈھونڈنا عبس ہی ہوتا ہے۔


کمال حیرت امر یہ ہے کہ محبوب کی چالوں اور سیاسی چالوں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں کی چالوں میں رحم کی گنجائش نہیں ہوتی دونوں کے متاثرین ابتداء میں نہایت خوش اور بعد میں اگر زندہ بچ جائیں تو نہایت ہی رنجیدہ و ملول ہوتے ہیں، جیسے سیاسی وعدے اور محبوب کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے، بلکہ وہ تو ہوتے ہی پورے نہ ہونے کیلئے ہیں، یہ بس ایک چال یا جال کی قسم ہوتی ہے۔

فریق ثانی یا عوام کو بہلائے رکھنے یا الجھائے رکھنے کیلئے۔
بات محبوب کی چال کی ہو یا سیاست کے جال کی ، لوگ نا چاہتے ہوئے بلکہ کبھی کبھی جانتے بوجھتے اس میں پھنس جاتے ہیں، اور بعد میں پچھتاتے ہیں، شاید یہ پچھتاوا بھی ایک نشہ ہے، کہ لوگ جان بوجھ کر بار بار کرتے ہیں۔ اب تک یہ محض ایک راز ہی ہے کہ جانے وہ کونسا جذبہ ، کونسی امید ہوتی ہے جو لوگوں کھینچ کھینچ کر اس جال کی جانب لئے چلی جاتی ہے، اور لوگ خوشی خوشی محض شربت دیدار یا ایک بریانی کی پلیٹ کے عوض جانتے بوجھتے خود کو کبھی پانچ سال کیلئے اور کبھی عمر بھر کیلئے مشکل میں ڈالنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :