"ایک ٹھ- ٹھیلا بھی ہوتا تھا"

جمعہ 12 مارچ 2021

Zahid Yaqub Aamir

زاہد یعقوب عامر

میرا ٹرین کا سفر بچپن سے ہی شروع ہو گیا تھا. ٹرین کی آواز, گارڈ کی وسل, اسٹیشن پر لگی گھنٹی کا بجنا, ڈرائیور کی طرف سے لمبا ہارن بجانا اور پھر چند لمحوں بعد ہلکا سا ,مختصر ہارن.... پھر ٹرین روانہ ہو جاتی تھی. بہت سے ہاکر ٹرین کا حصہ ہوتے تھے. چاچا امین جو کہ حافظ آباد سے تھے وہ پھکی بیچتے تھے. بہت شفیق اور ملنسار انسان. کالج کے زمانے میں ان سے ٹرین میں ہی ملاقات ہوئ اور پھر طویل عرصہ تک ان سے رابطہ رہا.

یہ رابطہ اب نہیں رہا. امید ہے اس تحریر کے بعد ان کے بارے کوئ اچھی خبر ہی آئے گی.
ٹرین میں سوار بہت سے ہاکر, وینڈر اپنی اشیاء فروخت کرتے تھے. پسنجر ٹرینوں کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہوتی تھی.

(جاری ہے)

ٹرین کی دو بوگیوں کے درمیاں کوئ دروازہ یا راستہ بھی نہیں تھا. باقی تمام سٹوڈنٹ اور وینڈر تو مخصوص سٹننٹ کرتے ہی تھے مگر بوتلیں بیچنے والے وینڈر دیکھ کر ہمیشہ ڈر محسوس ہوتا تھا.

پہلی بات تو یہ کہ ان کے بازو پر لٹکی جستی چادر سے بنی بالٹی کا کنڈا ان کے بازو پر رکھا ہوتا تھا. بھاری بالٹی کو بازو پر تھامے وہ ٹرین میں گھوم رہے ہوتے تھے. کنڈے کے نشانات ان کے بازوں پر جلد کو سخت بنا دیتے تھے. بازو کی جلد سیاہی مائل ہو جاتی تھی. قلفی, چنے بیچنے والوں کا کولر یا بالٹی بھی ایسی ہی تھی. ان کے بازو کی جلد بھی اسی طرح ماتھے کے محراب کی مانند سخت ہو چکی ہوتی تھی.

بقول ہمارے ایک سینئر عبد الصمد خٹک ,محراب ضروری نہیں کہ ماتھے پر ہی ہو, یہ ہاتھوں اور بازؤں پر بھی ہو سکتا ہے.
یہ وینڈر آواز لگاتے تو بوتل کا لفظ مکمل ادا نہ ہوتاتھا. بوتے, بوتے.... ٹھنڈی بوتے کی آواز ٹرین میں سفر کرنے والے ہر شخص کے لیے مانوس آواز ہے. مجھےڈر کیوں محسوس ہوتا تھا ؟ اس کی وجہ وہ سٹننٹ تھا جو وہ جان بوجھ کر کرتے تھے. وہ بازو پر برف اور بوتلوں کے وزن والی بالٹی لٹکائے ایک بوگی سے دوسری میں جاتے تھے.

بوگی کراس کرنا ان کے دائیں اور بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. چلتی ٹرین سے بوگی کراس کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے نہیں جوکھوں میں جھونکنے کے مترادف تھا. ہلکی سی غلطی ہمیشہ کے لئے پچھتاوا اور دوسرے کے لئے کرب کا باعث بن سکتی تھی. وہ لوگ دن میں سینکڑوں بار یہ سب کر گزرتے تھے.
بازو پر کھردری, سیاہ جلد واقعی ان کے رزق حلال اور محنت کی سند تھی.

جیسے میری بیٹی عدینہ, میرے بازو پر لیٹتی ہے اور میرے چہرے, ہاتھ بازؤں کو چھوتی ہے اسی طرح ان محنت کشوں کے ہاتھوں, بازؤں, کندھوں پر سجے یہ محراب ان کی زندگی کی چکی کے پاٹوں میں بیتے لمحوں کا عکس ہیں. جسم پر کندہ, ایمبوس, ابھرے "عکس" ان کے بچوں کے لیے کچھ عجب سا احساس رکھتے ہوں گے. ان بچوں نے بھی انہیں چھوتے ہوئے معصومیت سے ضرور پوچھا ہو گا کہ بابا یہ کیا ہے؟ اس مزدور کو بھی شاید اسی وقت یہ احساس جاگا ہو گا کہ ان کے بازو پر کھردری جلد جسم کے دوسرے حصوں سے کچھ مختلف ہے.

یہ تلخ ,بندہ مزدور کے اوقات ان کی جوانی کو کم کر دیتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ اس طبقے کے لوگ بچپن سے سیدھے بڑھاپے کی سرزمین پر لینڈ کرتے ہیں. جوانی کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے. چلیں اگر آپ کو میری اس بات سے اتفاق نہیں تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ ان کی زندگی کی پہلی سٹیج,  جوانی اور پھر بڑھاپا ہے. بچپن, جینے کا سبق سیکھتے سیکھتے کہیں گم ہو جاتا ہے.
ہتھ ریڑھی والے مزدور تو ہم سب روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں, کچھ مزدور تو ریڑھی کو کندھوں پر رکھے,دھکیلتے بھی نظر آتے ہیں.چلیں جہاں ٹرین کی بات چل نکلی, مزدوروں, وینڈرز کا انداز زندگی زیر گفتگو ہے تو ایک ایسے مزدور کو یاد کرتے ہیں جو ہمارے بچوں نے کبھی نہیں دیکھا.

ہم اپنے بچپن میں اسے متعدد بار دیکھ چکے ہیں. یہ مزدور ٹھیلے والا تھا. وہ ٹھیلا نہیں جو آبادیوں, گلیوں میں گھومتا ہے. وہ ٹھیلا جو ریل کی پٹڑی پر بھاگتا تھا. ٹرین کی طرح کے چار پہیوں والی گاڑی... اس پر براجمان ایک آفیسر اور ایک یا دو ماتحت. ہمراہ دو ملازمین جن کا کام اس ٹھیلے کو ریل کی پٹڑی پر دوڑ کر بھگانا ہوتا تھا. سردیوں کاموسم ہو یا گرمیوں کی رت, یہ دو لوگ اس ٹھیلے کو ٹرین کی پٹری پر دھکا دے کر بھگاتے تھے.

یہ افسر اس پر بیٹھ کر ریل کی پٹڑی کا معائنہ کرتا تھا. سامنے یا عقب سے ٹرین آنے کی صورت اس ٹھیلے کو پٹری سے اتارنا, دوبارہ جوڑنا اور ریل کی پٹڑی پر رکھ دینا بھی انہی کا کام ہوتا تھا. سینکڑوں سال قبل ہونے شروع ہونے والا یہ سفر آج بھی رواں تھا. مجھے اپنے بچپن سے ہی ان پر ترس آتا تھا. اس ٹھیلے کو رواں رکھنے والا شخص جوتا اتارتا اور دھکا لگانے کے لئے ٹرین کی پٹری پر بھاگ پڑتا.

دوسرا شخص جمپ کرتا اور ٹھیلے پر سوار ہو جاتا. ہمارے بچپن کے سکول کے قاعدے میں بھی ٹھ, ٹھیلا پڑھایا جاتا تھا. آج ٹھیلے کا ذکر آیا تو یو ٹیوب پر اس کی ویڈیو دیکھنا چاہی. معلوم ہوا کہ اب ان ٹھیلوں میں چند ایک پر موٹر نصب کر دی گئی ہے. البتہ گرمی, سردی, بارش تو فطری عمل ہے, قدرت کی تقسیم ہے. جسے چاہے آسان رزق سے نواز دے, جسے چاہے مشکل زندگی کی چکی کے پاٹوں میں پسنا مقدر لکھ دے.
ریل کہانی, لکھتے لکھتے بہت سے لوگ یاد آتے ہیں.

بہت سے کردار آنکھوں سامنے گھومتے ہیں. بہت سی چیزیں سوچ کر چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے. وہ پرانے نلکے, لوہے کے بنچ, تعمیر کے شاہکار ریلوے اسٹیشن, پرانی لالٹینیں, بتی گودام ,سنہرے کاغذات سے مجلد لاگ بکس, نجانے کیا کچھ تھا. میں چاہوں گا کسی ٹھیلے کے عقب میں بھاگتے مزدور کا انٹرویو کروں, اس کی یادداشتیں سنوں, اس سے پوچھوں کہ کبھی طبعیت خراب بھی ہوئ ہوگی, پاؤں میں درد, تکلیف بھی رہی ہو گی, ان حالات میں یہ تجربہ کیسا تھا؟ بلاشبہ یہ اس کی ریلوے کی سرکاری پکی نوکری تھی جس نے اس ملازم کو ریل کی پٹڑی کا محافظ اور مسافر بنایا تھا.

میرے اور آپ کے لئے یہ تکلیف دہ کام تھا,مگر اس کے لئے تو یہ زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کا ذریعہ تھا. اسی لئے تو کہا تھا کہ بہت سے لوگوں کی زندگی بچپن سے سیدھی بڑھاپے میں لینڈ کرتی ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :