
کرونا وائرس: عذاب یا وبا
جمعرات 9 اپریل 2020

ذیشان نور خلجی
اس سوال کو لے کے حضرت انسان واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ چکا۔ ایک اہل مذہب دوسرا اہل سائنس۔ اور میرے خیال میں یہی وہ وقت ہے جب ہر دو طبقات کو اپنی کھینچی گئی خود ساختہ لکیروں کو عبور کر کے ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔ کیوں کہ انسان مادی وجود کے ساتھ ساتھ ایک روحانی وجود کا بھی حامل ہے۔ صرف مادیت پہ یقین رکھنے والوں کی عمارت بھی ڈھہ چکی ہے اور صرف روحانیت کو ہی سب کچھ سمجھنے والوں کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ کیوں کہ اگر جدید طب اس کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہے تو وہ در بھی بند ہو چکے ہیں ماضی میں جہاں سے شفاء ملا کرتی تھی۔
(جاری ہے)
ہم اوپر اٹھائے گئے سوال کے تناظر میں کچھ جائزہ لیتے ہیں۔
دراصل ایسا نازک وقت آ گیا ہے کہ اگر اہل مذہب کے تراشے ہوئے صنم اس ایک وائرس کے سامنے بت آزری کی طرح ڈھیر ہو چکے ہیں تو اہل سائنس کا اس چھوٹے سے وائرس نے یہ حال کر دیا ہے کہ مچھر نے نمرود کا کیا، کیا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ مذہب اور سائنس دو مختلف دفاتر ہیں۔ مذہب کا دائرہ کار روحانیت ہے۔ سائنس اس کے حلقہ اثر میں نہیں آتی۔ اور سائنس کبھی انسان کی روحانی زندگی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی۔
دارصل سائنس اور مذہب کا ٹکرائو صرف اور صرف ہماری اختراع ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے جب ایک شخص کو مادی مسائل درپیش آتے ہیں کہ جن کا دائرہ کار سراسر سائنسی ہوتا ہے تو لازمی امر ہے کہ مذہب اسے حل کرنے سے قاصر ہو گا۔ اور جب اسے روحانی معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ سائنس اس کا حل تلاشنے میں کامیاب ہو۔ اور اسی لئے آج سائنس اور مذہب دونوں ہی ناکام ہو چکے کہ ہم نے ان دونوں سے وہ کام لینا شروع کر دیئے ہیں جو ان کے کرنے کے تھے ہی نہیں۔ ایک ٹرک ڈرائیور کو بڑھئی کا کام سونپ دیا جائے تو وہ جگ ہنسائی کا باعث ہی بنے گا۔
وائرس کے حوالے سے بات کی جائے تو آنے والے دنوں یہ ضرور ہو گا کہ سائنس اس کا حل ڈھونڈ نکالے گی۔ لیکن امید ہے کہ حل صرف یہی ہو گا کہ ایک دن یہ وائرس خود ہی اپنی مدت پوری کر کے چلا جائے گا۔ ہاں، لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا جائے گا کہ ہم نے اس کی ویکسین تیار کر لی ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دعا ہے، ایسا ہی ہو کہ پہلے بھی سائنس ایسے معاملات میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ لیکن کیا تب کوئی اس پہلو پہ بھی سوچے گا کہ اپنی مدت گزارنے کے بعد یہ وائرس خود ہی ایسا خطرناک نہیں رہا جیسا کہ آج سے چند سال قبل بھی یہ موجود تو تھا لیکن مہلک نہیں تھا۔
قارئین ! دراصل یہ وائرس اہل زمین کے لئے ایک مخمصہ ہی ثابت ہوا ہے اور ہم باوجود کوشش کے اس قضئیے کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔ لہذا اس کو ادھر ہی چھوڑتے ہوئے ہمیں ابھی وہ کام کرنے چاہئیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ تو اس مصیبت کی گھڑی میں ایک باشعور انسان کا کردار کیا ہونا چاہئیے؟ مذہب کا باب اس بارے بہت روشن ہے کہ ہمیں اسباب تو لازمی اپنانے چاہئیں لیکن پھر اس کا نتیجہ بھی معبود کی منشا پہ رکھ چھوڑنا چاہئیے۔
لہذا ہمیں چاہئیے ہم دوا بھی کر یں اور دعا بھی۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اسے جسمانی سہارے کے ساتھ ساتھ روحانی سہارے کی بھی اشد ضرورت رہتی ہے۔ سو ہمیں اپنے حکیم اور ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اپنے خدا اور بھگوان کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.