شب برات کے موقع پر پولیس کی غفلت‎

اتوار 12 اپریل 2020

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

ان دنوں پنجاب پولیس کافی داد سمیٹ رہی ہے۔ اور یہ پہلا موقع ہے کہ کان پکڑاونے اور مرغا بنوانے کے بعد بھی، لوگ پولیس کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تک عوام کا غیض و غضب ہی ان کے حصے میں آیا کرتا تھا۔ اور پولیس واقعی داد کی مستحق بھی ہے کہ جب ہر کوئی کرونا سے ڈرا دبکا گھروں میں بیٹھا ہے تو قوم کے یہ محافظ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر لاک ڈؤان کو موثر بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ لاک ڈاون میں جرائم کی شرح بھی کافی حد تک کم ہو چکی ہے کیوں کہ ایک تو لاک ڈاون کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند ہیں دوسرا ہر چوک، چوراہے پر پنجاب پولیس کے مستعد اہلکار کھڑے نظر آتے ہیں۔
    مجھے بھی یہی خوش فہمی رہتی اگر پچھلے دنوں شب برات نہ آتی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر رات بھر پٹاخے اور ہوائی فائرنگ ہوتی رہی۔ بلکہ بعض علاقوں میں گزرے سالوں کی نسبت امسال شدت دیکھنے میں آئی۔

اور میں سوچنے لگا کہ یہ جو اتنے متحرک اور چاک و چابند پولیس کے دستے شہر بھر میں تعینات نظر آتے ہیں، آخر کو یہ کر کیا رہے ہیں؟ کہیں سابقہ روایات کی طرح اس بار بھی صرف عوام کی تضحیک کرنا ہی تو ان کا مقصد نہیں۔
قارئین ! آتش بازی ایک منظم کاروبار ہے۔ سب سے پہلے پٹاخوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ پھر اسے بازار میں لایا جاتا ہے جہاں سے صارفین اسے خریدتے ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کل جب کہ ہر طرف لاک ڈاؤن کا دور دورہ ہے تو یہ سب سامان مارکیٹ میں پہنچا کیسے؟ کیوں کہ آتش بازی کو چلانے کے لئے چند ہفتے قبل ہی بنایا جاتا ہے دوسری صورت میں یہ قابل استعمال نہیں رہتی۔ اب ظاہر سی بات ہے لاک ڈاؤن کے دنوں میں ہی اسے بازار پہنچایا گیا ہے اور بازار میں بھی، جب کہ سب دوکانیں بند ہیں تو پھر یہ سامان کہاں بکتا رہا کہ پولیس کی نظر میں ہی نہ آ سکا؟ کیا یہ میڈیکل سٹورز اور سبزی کی دوکانوں پہ بکتا رہا کہ جس وجہ سے عوام تک اس کی رسائی آسان ہو گئی؟ اور پھر اس کو استعمال کرنے والے اکثر غیر سنجیدہ اور نو عمر ہی ہوتے ہیں تو وہ لوگ کیسے پولیس کو چکما دینے میں کامیاب رہے اور سہولت سے گھروں میں آتش بازی منتقل کرتے رہے؟
قارئین ! شب برات کے موقع پر آتش بازی کا استعمال ایک ایسا جرم ہے کہ براہ راست ہم سے تعلق رکھتا ہے اور ہم اس جرم کو دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔

لیکن جو بات کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اور ایسے کتنے جرائم ہیں کہ جو ہو تو رہے ہیں لیکن براہ راست تعلق نہ ہونے کے سبب ہمیں ان کا ادراک نہیں؟ کیا منشیات کا نیٹ ورک بھی ابھی تک زیر زمین ایسے ہی گردش میں ہے اور کیا قمار بازی کے اڈے بھی ابھی تک کھلے ہوئے ہیں جب کہ باقی سارا ملک بند ہوا پڑا ہے؟ اور پولیس کا شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ یہ ہمیشہ سے 'سب اچھا' کی رپورٹ ہی کرتی آئی ہے۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ لوگ تو ایف آئی آر کا اندراج بھی صرف اس لئے نہیں کرتے کہ جرائم کی شرح کم ظاہر ہو۔
ایسے میں ارباب اختیار کو چاہئیے کہ پولیس کی اس غفلت کا نوٹس لیں اور یہ بات یقینی بنائی جائے کہ کم از کم لاک ڈاؤن کے موقع پر، ان جرائم پیشہ عناصر کو بھی لاک ڈاؤن کی پابندی کروائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :