
اور فرانس فتح ہو گیا۔۔
پیر 23 نومبر 2020

ذیشان نور خلجی
اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف، ہوا کچھ یوں کہ پیرس والے ملک فرانس میں کچھ ناعاقبت اندیشوں نے گستاخانہ خاکے شائع کئے جس کی وجہ سے امت مسلمہ میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
(جاری ہے)
لیکن انہی میں سے ایک طبقہ ایسا بھی اٹھا جو کہ ذرا زیادہ ہی مسلمان واقع ہوئے تھے۔ ذرا زیادہ کا لفظ اس لئے استعمال ہوا ہے کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے سوا ہر دوسرے کو گالیوں پر رکھے ہوئے ہیں۔
اب جو ذرا زیادہ مسلمان واقع ہوئے تھے انہیں ایک غلط فہمی لاحق ہوئی اور انہوں نے بجائے پیرس والے فرانس پر چڑھائی کرنے کے، فیض عام والے فرانس پر چڑھائی کر دی۔ مجاہدین کی تازہ دم سپاہ، غوری ڈنڈوں سے لیس دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کس شیر کی آمد تھی کہ رن کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم کنکریٹ میں لتھڑا، میٹرو ٹریک بھی کانپ رہا تھا۔ مسلح لشکر نے سب سے پہلے اسی ٹریک پر قبضہ کیا تاکہ اس کی کپکپی منتقل ہو کر ایوان حکومت پر طاری ہو جائے۔ گو حکومت نے مجاہدین کی جدید ٹیکنالوجی ڈی فیوز کرنے کے لئے مواصلاتی ذرائع مفقود کر رکھے تھے لیکن پھر بھی اگلے مورچوں سے، گاہے بگاہے آنے والی معلومات سے اندازہ ہوتا تھا کہ امیر المجاہدین کی سربراہی میں یہ لشکر فرانس کی ناپاک حکومت کو تہ تیغ کر کے ہی واپس لوٹے گا۔
اور تب تو کافروں کا ایمان بھی تازہ ہو گیا جب ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں غازیوں کا ایک دستہ چند فرانسیسی پولیس اہلکاروں پر چڑھ دوڑا اور انہیں مار مار کر گیند بنا دیا۔ گمان کیا جا رہا ہے ان پولیس والوں میں وہ ملعون کارٹونسٹ بھی شامل تھا جس نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔ جب کہ ایک غازی صاحب بتا رہے تھے کہ فرانس کا صدر جس کی سربراہی میں یہ سب گستاخی کی گئی تھی وہ خود بھی اسی سکوارڈ میں شامل تھا تاکہ آگے بڑھ کر مجاہدین کی یلغار روک سکے لیکن پھر مجاہدین نے اسے بھی مار مار کر برکس نکال دیا اور سننے میں آیا ہے کہ اسے دارالحکومت کے بڑے چوک میں مرغا بھی بنایا گیا ہے۔
دوستو ! مجاہدین کی یلغار ابھی جاری تھی اور قریب تھا کہ ایک دفعہ پھر انقلاب فرانس برپا ہو جاتا کہ فرانسیسی بادشاہ کو شرم آ گئی اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا لہذا پھر بادشاہ سلامت نے اسی رات امت کے عظیم جرنیل، امیر المجاہدین سے معافی مانگی اور یوں مسلمان سرخ رو ہوئے۔
ادھرجب ملک فرانس کے دارالحکومت فیض عام میں یہ ساری کاروائی جاری تھی تو دوسری طرف ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں بیٹھا فرنچ صدر یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا کہ امت میں انتشار کے باعث وہ اپنے مقاصد میں ضرورت سے زیادہ کامیاب ہو رہا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کتنے بے وقوف لوگ ہیں جو دوسروں کی لگائی گئی آگ اپنے گھر میں لے گئے ہیں۔
لیکن فیض عام کے غازیو ! آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ بھلا، اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کون سوچتا ہے۔ بس فرانس فتح ہو گیا نا، یہی بہت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.