نا امیدی

جمعرات 11 مارچ 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

دنیا کا قانون ہے کہ انسان تب ہی کامیاب ہوتا ہے جب وہ محنت کرے چاہے وہ زندگی کے ہر شعبے میں ہوں اگر ہم بات کرے طلبہ کی تو ان میں بھی وہ لوگ کامیاب ہوتے جو امتحان سے پہلے پڑھتے ہیں جب استاد پڑھاتا ہے تو وہ اسی وقت بھی پڑھتے ہیں اور اس کے بعد بھی روزانہ کی بنیاد پر مطالعہ کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور جب امتحان کا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ اچھے نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔

یہ وہ طلبہ ہوتے ہیں کہ جو کھیل کھود پر بھی سمجوتہ کرلیتے ہیں اور پڑھائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بر عکس وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو نہ تو دوران کلاس پڑھتے ہیں اور نہ ہی مطالعے کا کوئی روٹین ہوتا ہے اور دوران امتحان بھی کم ہی پڑھائی کرتے ہوتے ہیں ذیادہ تر وقت بھی ان کا دوسرے کاموں میں خرچ ہوتا ہے تو پھر نتائج بھی ان کے اسی طرح ہی ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ٹھیک اسی طرح اگر ہم عملی میدان میں نظر دوڑائے تو وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو جو محنت بھی کرتے ہیں اور اپنے شعبے کے ساتھ بھی سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو کم محنت کرتے ہیں اور صرف ش
زندگی بسر کرنے اور وقت گزاتے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ اب بات آجاتی ہیں وطن عزیز کی گریجویٹس کی جو ڈگریاں لے کے یونیورسٹی سے باہر تو آجاتے ہیں لیکن وہ اپنے زریعہ معاش کو بڑھانے کے لیے کسی اور میدان کا انتخاب کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے فیلڈ کے ماہر نہیں ہوتے ہیں اور ان کے مثال ایسی ہی ہوتی ہیں کے وہ پہلے سرے سے یعنی صفر سے شروع کرلیتے ہیں۔

اور اگر پوچھا جائے تو سارے کا سارا الزام ملک، حکومت اور قوام کو دیا جاتا ہے۔ اگر چہ حکومت کی بھی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن کمیاں ہماری طرف سے بھی ہوتی ہیں۔ وہ افراد جو دوران ڈگری عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں دفتروں کے ٹھوکریں کھاتے ہیں اور اپنی سب سے پیاری زندگی جسے زمانہ طالب علمی کہتے ہیں اوہ بھی ایک فوجی جوان کی طرح گزرتے ہیں اپنی پڑھائی ، دوستی یاری اور اپنے کام کو اکھٹے بہ مشکل لے کر چلتے ہیں تو وہ پھر عملی میدان میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور پھر ہم ہی ان کا مثال ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانہ طالب علمی میں عیش کرتے ہیں تیار پیسے ملتے ہیں پھر ان کو تھوڑے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔

اصل مسلہ یہ ہوتا ہے کہ گھر والے بھی اسی کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ اب لڑکے کی ڈگری ملکمل ہونی ہے اور پیسے کمانے لگے گا۔ حالانکے معاملہ مختلف ہوتا ہے اور پھر اسی وجہ سے پیسے کمانے کی خاطر کسی اور میدان کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ دوران پڑھائی ہی آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ اپ جس شعبے میں ہوتے ہیں اسی میں بلا معاوضہ وقت لگانا چاہیے اس کےساتھ ساتھ برداشت بھی ایک اہم پہلو ہے جو ایک طالب علم میں ہونا ضراری ہے کیونکہ اپ کو بہت سارے لوگ جگہ بھی نہیں دینگے اور اگر کام کرنے کا موقع دے بھی تو وہ اپ کا پسندیدہ جگہ نہیں ہوگا البتہ اپ نے پھر بھی ہمت اور صبر کا دامان نہیں چھوڑنا ہوگا اور تیسرا اور سب سے اہم کا اپنی گریجویشن کے بعد گھر والوں دنیا والوں کے سوالات کا بھی سامنا کرنا ہوگا اور اپنے کام پر ہی سارے کا سارے توجہ دینا ہوگا اور حکومت کو بھی چاہے  کہ وہ ایسے مواقع پیدا کرے کہ طالب علم فاراعت کے بعد بے شک کم ہی موضے پر اپنے متعلقہ عملی میدان میں کا کرے اور ناامیدی سے لوگوں کو بچائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :